تائی امی سے ہماری باضابطہ ناراضی دو برس تک رہی اور پھر اچانک انکی وفات کی خبر آ گئی . سارے گلے شکوے ، رنجشیں گونگے ہو گئے اور لا تعلقی بھاپ بن کر تحلیل ہو گئی . اور ہم سب ان کے گھر چلے گئے . وہ سب سے بے نیاز ، آنکھیں موندے گہری ابدی نیند سو رہی تھیں . یادوں کا پنچھی میرے ہاتھوں سے اڑا تھا . اب صرف ان کا عکس باقی رہ گیا تھا . جس میں سے اب کافور کی مہک آ رہی تھی .
میں ' رانیہ آپی ' آصف بھائی اور امی ایک ددوسرے کے گلے لگ کر رو رہے تھے . ابو اور تایا ایک دوسرے سے معافی تلافی کر رہے تھے . اور تائی امی .... وہ جیسے ہر بات سے بے نیاز ہو چکی تھیں .
کیا رشتوں کی تجدید کے لئے کوئی حادثہ یا خدانخواستہ ابدی جدائی ضروری ہے ؟ آخر حالات ٹھیک کرنے کے لئے ' ٹھوکر کیوں ضروری ہوتی ہے ؟ ہم اپنی زندگی کا کتنا حصہ رشتوں کو ناراض کرنے میں صرف کرتے ہیں ناں....
واپسی پر میں اور امی دونوں چپ چپ تھیں .
" امی ! کیا ہم زندگی میں ایک دوسرے سے گلے شکوے دور نہیں کر سکتے ." میں نے رندھی آواز میں کہا . امی نے خاموشی سے مجھے دیکھا اور کوئی جواب نہ دیا .
" آپ مامی سے رنجش ختم کر دیں . شازیہ باجی بتا رہی تھیں کہ وہ بہت بیمار ہیں . ثنا باجی سسرال میں خوش نہیں ہیں اور ماموں کی مالی حالت بھی ٹھیک نہیں ہے . کیا ہم دل صاف کرنے کے لئے لقمہ اجل ہونے کا انتظار کرتے ہیں ."
امی اور مامی کے وہی گلے تھے جو نند اور بھاوج کے ازلی ہیں . بھائی کے کان بھرنے کا الزام تو امی کو گلہ کے ہمارا بھائی جدا کر دیا ہے .
" ہائے میرے میکے کی گلیاں ...." اکثر امی ہوکا بھرتیں. ان شکووں کی فصل اتنی توانا ہو چکی تھی کہ تین برس سے ہمارا رابطہ نہ ہونے کے برابر رہ گیا تھا . کسی شادی یا کسی تقریب پر صرف ماموں سے امی کی سلیم دعا ہوتی تھی . امی بھی شاید پچھتاؤں کے زیر اثر تھیں . ہم دونوں اگلے ہی روز ماموں سے ملنے گئے .