SIZE
2 / 4

" آپکو زیادہ پیار مجھ سے ہے ناں؟" ہر بچہ ان سے یقین دہانی چاہتا .

" ہاں چاند ! تم تو میری قیمتی دولت ہو ." کم و بیش ہر بچے کی یاداشت میں یہ جملہ ایک قیمتی خزانے کی طرح محفوظ تھا .

مجھے ہمیشہ شک رہتا کہ میری امی میری دو چوٹیاں ٹھیک نہیں بناتیں . اسکول جانے سے پہلے آئینے کے سامنے کھڑی ہو کر سر ہلا کر میں ان کی پیمائش کرتی .

" امی ! ایک اوپر ہے ' ایک نیچے ہے ." میں پیر پٹخ کر احتجاج کرتی .

اور امی مجھے تائی کے سپرد کر دیتیں . ان کی گوندھی ہوئی چوٹیاں ' باندھے ربن سارے دل سلیقے سے جمے رہتے . مجال ہے ذرا بھی ترتیب خراب ہو جاۓ یا بال بکھر جائیں ' گڑیا کی شادی ' پکوان کی تیاری میں وہ جوش و خروش سے شرکت کرتیں . وہ ہر شخص کو اپنے ہونے کا احساس دلاتیں.

رشتوں کو آبیاری چاہیے . دل جوئی کی ' ہمدردی کی ' محبت کی ' رشتے وہ پودے ہیں جن کی آبیاری وسعت قلب سے ہوتی ہے . بظاھر چھوٹی چھوٹی سی رنجشیں ، گلے شکوے ، آنا کی باتیں بڑھتی گئیں اور آخر کار رشتوں میں کھنچاؤ آتا گیا .

آصف بھائی نے اپنی پسند کی شادی کی تو لڑکیوں کی امیاں خفا ہو گئیں. حالانکہ تائی امی نے ایک لڑکی کو بہو بنانے کی خواہش ظاہر نہ کی تھی وہ بچوں کی مرضی اور خوشی کو مقدم جانتی تھیں .لیکن لڑکوں پر خاندان والے " اپنا حق " سمجھتے ہیں . سو ان کی دانست میں تائی امی سے سب لڑکیوں کی " حق تلفی " ہوئی تھی . امی کے آپریشن میں ان کی بہو نے خیریت نہ پوچھی.

رانیہ آپی کا رشتہ ماموں کے لئے ہم چاہتے تھے لیکن ان کا رشتہ انکی خالہ کے گھر ہو گیا. بس ایسے گلے شکوے ' بدلتے خیالات و رحجانات نے ہم سب کو ایک دوسرے سے پہلے رسمی ملاقاتوں تک محدود کیا پھر ٹیلی فونک رابطے اور آخر وہ بھی ختم ہو گئے .