بعض کیفیات الہامی ہوتی ہیں . جن میں آنے والے وقت کی آہٹ ہوتی ہے . کسی متوقع خوشی کا سندیسہ ، جدائی کا خدشہ ، ان ہوئی ، پریشانی کا احساس ، یا پھر نقصان کے وسوسے .... یہ کیفیات دل سے نکل کر اس پاس کے ماحول سے وابستہ ہو جاتی ہیں اور پوری فضا کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہیں . کبھی خزاں میں ٹنڈ منڈ درخت مسکراتے نظر آتے ہیں تو کببھی بہار کے پھول بھی اداسی میں لپٹے محسوس ہوتے ہیں .
میرے ساتھ بھی یہی معاملہ تھا . صبح سے اس کا دل اداس تھا اور ماحول سے خفا بھی . کبھی موسم کو الزام دیتی دھند آلود ' چپ میسنا موسم....
کبھی گیس کے ندارد ہونے کو الزام دیتی تو کبھی ....
اچانک طارق بھائی نے اندر آ کر اطلا ع دی ." تائی اماں فوت ہو گئی ہیں ."
یہ حیرت تھی ' شکوہ تھا ' سوال تھا یا میں نے خود کو یقین دلایا تھا .
اپنے احساسات میں خود بھی سمجھ نہیں پائی تھی . شاید یہ بے یقینی تھی اور اس کیفیت کے ساتھ میں ان کے گھر گئی . پورے پانچ برس بعد .
حویلی نہ نقشہ ویسا ہی تھا .
صحن، بالکونیاں ، دریچے ، ستون اور پھولوں کی کیاریاں جہاں ہم کھیلتے تھے . سب کچھ ویسا ہی تھا . بس وہی نہیں تھیں جن کے دم سے زندگی میں ' رشتوں میں رونق کا احساس رہتا تھا .
اب میں خشک آنکھوں کے ساتھ اجنبی عورتوں میں بیٹھی تھی . یادوں کا لا متناہی سلسلہ تھا جو ذھن میں ایک ندی کی طرح رواں ہو گیا تھا .
مشترکہ نظام زندگی نعمت ہے اگر دلوں میں وسعت ہو لیکن اگر ظرف کا پیمانہ محدود اور سطحی ہو . رشتے وسعت قلبی سے عاری ہوں تو پھر زحمت ہے .
میرا بچپن اس لحاظ سے بہترین ہے کہ یہ خوبصورت یادوں سے سجا ہے . مسکراتا کھلکھلاتا ہوا بچپن ' ہنسی سے سجا لڑکپن اور خوابوں میں بسا نوجوانی کا دور ....
تائی امی سب کو یکساں محبت دیتیں .