نانو کے گھر کی گلیاں اور راستے جو ذھن میں مدھم سے نقوش رکھتے تھے ' ابھر کر نمایاں ہو گئے .
مانوس فضا اور ساشا چہرے ' دل کو کیسا ہلکا پھلکا ر دیتے ہیں .
دروازہ بند تھا . امی بتاتی ہیں کہ پہلے یہ دروازہ دن بھر کھلا رہتا تھا ہر رشتہ دار اور ہمساۓ کے لئے . کسی وسیع القلب بزرگ کی طرح . ہلکی سی دستک سے دروازہ وا ہوتا چلا گیا .
اور ایک دور تھا میری آنکھوں کے سامنے ' جو صحن میں پھر سے آباد ہو گیا .
وہ بچپن کے دن ' محبت کرنے والے قیمتی بے لوث رشتے ' یادگار تہوار .... خوشیاں بانٹنے والے عزیز ....نجانے کہاں گردش دوراں میں کھو گئے تھے . جانے والے ہمیشہ آنکھوں میں غم بن کر کیوں ٹھہر جاتے ہیں ؟
صحن میں دھوپ پھیلی تھی . سرما کی دھوپ نرم اور گرم ماں کی آغوش کی طرح .
خون میں گردش کرتے رشتوں کی محبت کی طرح . مامی کمبل اوڑھے خاموشی سے لیٹے پرندوں کی انجان بولیاں سن رہی تھیں . ثنا باجی اداس سی پاس بیٹھی تھیں . درودیوار سے گھر کی خستہ حالی عیاں تھی .
" بھابی ."
" آپا !"
امی اور مامی کے منہ سے بیک وقت نکلا . اور دونوں ایک دوسرے کے گلے سے لگ گئیں. سارے گلے ، شکوے ، رنجشیں آنسوؤں میں بہہ گئی تھیں .
مامی کو بھی ایک کندھے کی ضرورت تھی اور امی کو بھی . گلے شکوے گونگے ہو کر معدوم ہو گئے اور صرف ایک ہی کلام رہ گیا تھا اپنائیت کا ' دردمندی کا . بندہ بندے کا دارو ' دکھ درد بانٹنے والا ہوتا ہے اور کوئی ٹیکنالوجی اس کا نعم البدل نہیں ہے .
رشتوں کو مضبوط کرنے کے لئے ضروری ہے کہ دل کے دروازے کھول دیے جائیں . صحن کی دھوپ میں آسودگی تھی اور ہنسی کی کھنک نے بتایا تھا کہ اب رشتے مضبوط رہیں گے .