فیصل اسکی ساس کے محلے میں رہتا تھا . اسکو کسی صاحب نے گود لیا تھا مگر بعد میں ان کے انتقال کے گھر بعد والوں کا رویہ اس سے اچھا نہ تھا .... وہ اسی محلے والوں کے لوگوں کے کام کر کے کچھ نہ کچھ کمائی کرتا تھا ... ساتویں جماعت تک پڑھ پایا دبلا پتلا چھریرا سا بیس بائیس برس کا لڑکا تھا ... میں نے ایک دو بار ساس سے پوچھا بھی کے آخر یہ فیصل کہیں باقاعدہ نوکری کیوں نہیں کر لیتا ... جس پر انہوں نے یہی بتایا کہ اس کے گھر والے نہ تو اس کے تعلیمی سرٹیفکٹ دیتے ہیں اور نہ ہی اب تک اس کا شناختی کارڈ بنوایا ہے کے اس کے لئے خاندان نمبر کی ضرورت پڑتی ہے اور وہ لوگ جائیداد کی وجہ سے ایسا کرنے سے گریزاں ہیں ... میں چونکہ سسرال کم ہی جاتی تھی اس لئے فیصل سے نہ پوچھ سکی ... وہ ہر کام میں ماہر تھا ... پینٹ کروا لو... پلستر کروا لو ... کار پینٹری میں بھی ماہر.... غرض یہ کے لوگوں کے ہاں کھانا کھانے کے لئے وہ کوئی بھی کام کر دیا کرتا تھا ... مگر لوگوں کی نظر میں پھر بھی وہ ایک معمولی کام کرنے والا ہی تھا . وہ سب محلے والوں کے کام بہت دل سے کیا کرتا تھا مگر لوگ اسے صرف ایک نوکر سمجھا کرتے تھے جبکہ ساس نے تو باقاعدہ اس کے کھانے کے برتن بھی الگ کر رکھے تھے .شکل صورت سے کسی بھی طرح وہ ایک نوکر نہیں لگتا تھا بلکہ مجھے تو اس کے لئے نوکر کا لفظ استعمال کیا جانا ہی بہت افسردہ کر دیا کرتا تھا .
ہمارا گھر سسرال سے کافی دور تھا .... میں نے آج بس سے سفر نہیں کیا تھا اس لیا جب فیصل بوجھل قدموں سے گھر میں داخل ہوا تو پتہ چلا کے اسے تین بسیں بدلنی پڑیں اور دو سے ڈھائی گھنٹے سفر میں لگے ... میں شرمندہ ہوئی اصولا تو مجھے اس کے لئے گاڑی بھجوانی چاہیے تھی یہ پھر اسے رکشے کا کرایہ ہی بھجوا دیتی . بہرحال یہ سوچا کے جب شوہر صاحب پہنچیں گے تو ان سے کہوں گی کے ڈرائیور کو کچھ دیر کے لئے روک لیں ...تاکہ اسکو واپسی پر آسانی رہے .