دوپہر اور رات کے کھانےمیں بھی ہم نے دیکھا رضیہ نے خود ہی اپنے لئے کھانا نکالا اور سب کے ساتھ بیٹھ کے کھایا .جبکہ امی کے ہاں ہم خود کام والی کو کھانا نکال کر دیتے ...بیشک اسی نے کیوں نہ پکایا ہو اور یہاں تو ہماری ساس اس سے بھی زیادہ کنجوسی کا مظاہرہ کرتیں ...وہ کل یا پرسوں کا بچا ہوا سالن کام والیوں کو دیتیں .یوں آج کا تازہ سالن بیچاری کو پرسوں باسی ہو کر ملتا ہے مگر یہاں سب کے لئے ایک سا کھانا بنتا ...کام والی ...مالی ،گارڈ یا ڈرائیور کی کوئی تخصیص نہیں ...تیسرے دن کپڑے دھونے والی آئ تو آتے ہی فرمائش کر ڈالی ..."باجی چاے کے ایک کپ کے ساتھ ایک انڈا ابال دیں ..جسم میں سخت درد ہے ." ہم حیران رہ گئے کیونکہ ہم تو اگر کبھی ابلے انڈے صرف اپنے اور اپنے بچوں کے لئے ابالتے ' ملازمین کے حصّے میں تو صرف شوربہ ہی آتا ...لیکن بھابی کے ہاں تو لنگر کھلا ہوا تھا ...کام والیاں تو کبھی پرانی کام والیاں 'کوڑے والے'مالی گارڈ'ڈرائیور اور کبھی کبھی تو مانگنے والے بھی ...ان پندرہ بیس دنوں میں ہم نے دیکھا ایک کام والی جب بھی آتی تو چاۓ کی فرمائش کرتی ...چاۓ کا وقت ہو نہ ہو اسے چاۓ بنا کر دی جاتی ...دوپہر میں میں ٹھنڈا پانی لینے گئے تو کسی اور کو روٹی بناتے ہوئے دیکھا ...پتا چلا کے محلے کے کسی گھر میں کام کرتی ہے ...مگر وہ اسے کھانا نہیں دیتے ...جب بہت بھوک لگے تو یہاں آ کر کھانا بنا کر کھا لیتی ہے ...دل کو کچھ ہوا ہمارے بھائی کی محنت کی کمائی یوں بے دردی سے لٹائی جا رہی ہے .