SIZE
4 / 12

" آج میری سالگرہ ہے ۔ " رسما " دونوں کی طرف سے سالگرہ مبارک کہا گیا۔ آج اس کا پڑھنے کا کوئی موڈ نہ تھا۔ مسز انصاری نے جھٹ پٹ ایک کیک منگوایا اور ہلکی پھلکی باتیں شروع ہو گئیں ۔ شادی کے جوڑوں کا ذکر ایک بار پھر نکل آیا تو وہ بولی۔

" اب تو گرین، سلور' پیچ اور سی گرین ہر قسم کے رنگ فیشن میں ہیں۔ میری کزن نے حال ہی میں نیوی بلیو کلر اور سلور کومبی نیشن سے عروسی جوڑا تیار کروایا۔ اس کے سسرال والے ہیروں کا سیٹ پہنانا چاہ رہے تھے تھے ہاں آنٹی! ساشا نے زور دے کر بتایا۔

" ویسے آج کل لندن کے سیٹس بھی فیشن میں اِن ہیں۔ لوگ بڑے چاؤ سے جڑاؤ زیورات بنا رہے ہیں۔ سنا ہے کہ ایک لاکھ میں بڑے شاندار سیٹس مل رہے ہیں۔

" ایک۔۔۔۔ ل۔۔۔۔۔ لاکھ ۔" اس کی آواز گھٹ سی گئی۔ یہ دو حرف بڑی مشکل سے اس کے منہ سے نکلے۔

" سونا تو بیٹا! اس سے بھی مہنگا ہوچکا ہے۔ اب بڑی مشکل سے شادی کے اخراجات پورے ہوتے ہیں۔ میرا مطلب ہے ملازمت پیشہ اور خاص کر متوسط طبقے والوں کے لیے بڑی آزمائش کا دور ہے۔"

" وہ آنٹی ! امی کہہ رہی تھیں۔ آپ سے ملنے کو جی چاہتا ہے۔ کل لے آؤں انہیں ؟" وہ اسی طرح گرم جوشی سے بولتی تھی۔

" ہاں ہاں کیوں نہیں یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے۔ اچھا اب اپنی پڑھائی کر لو بہت ٹائم لے لیا میں نے۔" وہ جانے لگیں تو ایک اچٹتی سی نظر انصاری صاحب پر پڑی ۔ وہ آنکھوں ہی آنکھوں میں غصے کا اظہار کر رہے تھے۔

وہ چائے کے بکھرے ہوئے برتن سمیٹتے ہوئے سوچ رہی تھیں۔ کیا کیک منگوا کر غلطی کی ' کیا مجھے گرمجوشی سے سیلیبریٹ نہیں کرنا چاہیے تھا۔ مگر اس وقت تو وہ بہت خوش تھے۔ انہوں نے کچن میں آ کر بڑی دلچسپی سے ناشتے کی ٹرالی سجی دیکھی تھی۔ ہمارے گھر میں تنہائی کے علاوہ رہتا کون ہے۔ ایک یہی تو لڑکی آتی ہے جو ذرا ہنس بول کر دو گھنٹے گزار دیتی ہے اس کے بعد تو ہمیں عینی کے فون ہی کا انتظار رہتا ہے۔ اب یہ رخصت ہوگی تو پتا چلے گا۔ وہ معمول کے کاموں میں لگ گئیں ۔

جاتے وقت وہ چپل گھسیٹتی ہوئی صحن میں آئی۔

" اچھا آنٹی! جا رہی ہوں بہت شکریہ آپ کی نوازش کا۔"

"ہم تمہیں اپنی بیٹی ہی سمجھتے ہیں۔ " انہوں نے آگے بڑھ کر ساشا کا ماتھا چوما' وه سلام کر کے روانہ ہو گئی انصاری صاحب حسب معمول اپنے ایس ایم ایس دیکھنے لگے۔

صحن میں چاول صاف کرتے ہوئے مسز انصاری کو خیال آیا کہ کیوں نہ کل جب ساشا کی امی آئیں تو وہ انہیں کھانے پر روک لیں ۔ مرو تاََ انکار تو کریں گی لیکن اچھا نہیں لگتا یوں چائے اور ہلکے پھلکے ناشتے کے بعد رخصت کر دینا۔ اسی بہانے وہ دانیال کے رشتے کی بات چھیڑ کے دیکھیں گی۔

دانیال ان کے دور پار کے رشتے داروں کا بیٹا تھا۔ اپنی ذاتی فرم قائم کر چکا تھا۔ پویش ایریا میں رہنے اور اعلیٰ تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد بھی اس گھرانے کی سوچ میں عاجزی انکساری اور غریب پروری موجود تھی۔ ایسا فی زمانہ ہوتا کہاں ہے۔ دنیا مادہ پرستی کے جال میں الجھی ہوئی ہے لیکن دانیال کی امی ابو نے انصاری فیملی کو اس کے رشتے کے لیے کوشش کرنے کو کہا تھا۔