" پروفیسر صاحب کی کوئی شاگردہ دیکھ لیں بھابھی!" پچھلے ہی ہفتے دانیال کی امی صادقہ نے فون پر رائے دی تو ان کے ذہن میں ساشا اور اس کی بہنوں کا خیال آیا۔ اس کے بعد خاندان میں دو شادیوں کی مصروفیت آڑے آ گئی۔ اب ساشا نے امی کے ملنے کا خیال ظاہر کچھ کیا تو وہ ارادہ کر چکی تھیں کہ انہی کو دانیال کے والدین سے ملائیں گی۔ رات گئے جب وہ کھانے سے فارغ ہوئے تو انہوں نے پروفیسر صاحب سے یہ ذکر چھیڑا ۔ وہ اس وقت چائے پی رہے تھے۔ ایک دم پرچ پر پیالی جماتے ہوئے انہوں نے گھور کر بیوی کو دیکھا۔
" آپ کو کس نے کہا اس بکھیڑے میں پڑنے کے لیے پرائے بچوں کی ذمہ داریاں کیسے لے سکتی ہیں؟"
" دانیال اپنا ہی بچہ ہے۔ عینی اسے بھائی جان کہتی ہے اور وہ بھی بہنوں جیسامان نبھاتا ہے ورنہ میں اپنی بیٹی کی فکر پہلے کرتی۔ دوسرے ساشا کی فیملی بھی دیکھی بھالی ہے۔ اس کی بڑی بہن کے لیے پریشان رہتی ہیں
اس کی امی -"
" آپ کو پتا ہے منگنی ہو گئی ہے اس کی پچھلے ہفتے اور رہ گئی ساشا تو اس لڑکی کے دماغ بہت اونچے ہیں اور وہ آپ کو کیا پڑی کہ سوشل ورک کریں۔" وہ جھلا سے گئے۔
" منگنی کا تو خیر مجھے پتا نہیں تھا اور لڑکیوں کے جتنے بھی اونچے دماغ ہوں، رشتہ والدین کو بھا جائے تو آپ ہی آپ سمجھ جاتی ہیں۔ "
" بہرحال آپ کو یہ صلاح مشورہ دینے کی ضرورت نہیں۔" وہ اٹھے اور واش روم میں چلے گئے ۔
انہوں نے بھی بحث کرنی ضروری نہیں سمجھی۔ وہ دوسرے واش روم میں عشاء کی نماز کے لیے وضو کرنے چلی گئیں مگر دماغ الجھ سا گیا تھا۔ کہاں تو اپنے ہر شاگرد کے بلا تخصیص جنس ، نسل اور مذہب ہمدرد اور مشفق بزرگ کم دوست زیادہ مشہور تھے ۔ کالج کے میگزین میں ان پر نظمیں اور مضامین شائع ہوتے تھے۔ گھر تھا یا سماجی ادارہ یہ انہوں نے کبھی مختلف نہ جانا۔
" بیسیوں طلبا کو علم کی روشنی دینے والا طلسماتی کردار' ایک شجر سایہ دار کہ جس کی شاخیں زمین پر پھیلی اور جڑیں علم کے خزینے میں پیوست تھیں۔ ایک نظریہ علم کی تہذیب اور ایک تاریخ ساز حقیقت' وہ فیصلہ نہیں کرپاتی تھیں کہ انصاری صاحب کی تلخ باتیں سن کر بھی ان سے ناراضی کیوں نہ ہوتی مگر ساشا کے معاملے میں وہ انہیں لا تعلق رہنے کے لیے زور دے رہے تھے۔ انہوں نے سر جھٹک کے دھیان بدل دیا۔