SIZE
3 / 12

میں ساشا کو تصویر کا دوسرا رخ دکھایا۔

" آپ کی شادی میں کیسے حالات رہے تھے۔ کیا اس وقت عصبیت اسی طرح تھی اور خاندان ہی میں ہی رشتہ کرنے کی روایت نہیں تھی۔ " ساشا نے سرکی تصویر البم سے الگ کر کے ایک جانب رکھ دی مگر مسز انصاری نہ جانے کس دھیان میں تھیں۔ ان کی نظر بھی نہ پڑی۔

" خاندان میں شادی کرنے کی روایت اب ماضی کا قصہ بنتی جا رہی ہے ۔ شاید بچے میڈیکل سائنس اتنا جان چکے ہیں کہ انہیں جین میں پلنے والی بیماریوں کا سبب معلوم ہو چکا ہے۔ میری بیٹی بھی خاندان میں شادی نہیں کرنا چاہتی جبکہ اس کے ماموں اور چچا کے ہاں ایک بہتر میچ موجود ہے۔ وہ مذاق ہی میں سہی مگرکہہ رہی تھی یہ میچ فکسنگ کی غلطی کبھی نہیں کرنی چاہیے۔ خمیازے میں بے چارے بچے معذور ہو کر زندگی کی قید کاٹنے پر مجبور کر دیے جاتے ہیں۔ میں بھی اسی خیال کی پروردہ ہوں۔

"اچھا بھئی بریک ختم۔ اب آپ سمیٹیں تصویریں اور انہیں کام مکمل کرنے دیں۔" انصاری صاحب نے بیگم کو ٹوک دیا۔

" جی اچھا ویسے بھی میرا آلو گوشت تیار ہونے کو ہے اور عصر کی نماز بھی پڑھنی ہے۔ " مسز انصاری یہ کہہ کر صحن میں آئیں ۔ " کافی ذہین لڑکی ہے مگر پتا نہیں کیوں میتھس میں مار کھا جاتی ہے ۔" انہوں نے دل ہی دل میں سوچا کہ " اس کی شادی کے لیے کوشش کرنی چاہیے

اب بھلا لڑکی خود تو کسی سے کچھ کہہ نہیں سکتی ۔"

انصاری صاحب نے انہیں نماز سے فارغ ہوتے دیکھا تو چائے کی ایک پیالی کی فرمائش کر دی۔ وہ تھوڑی دیر کے بعد جب چائے کی ٹرے لے کر اندر گئیں تو تھوڑی سی حیرت ہوئی۔ ساشا بجائے پڑھائی کے ان سے جوتا چھپائی اور دودھ پلوائی کی رسموں کے بارے میں معلومات حاصل کر رہی تھی ۔ پڑھائی کب ہوگی' دو گھنٹوں سے تو شادی کی مووی کو ری وائنڈ کر کے دیکھا جا رہا ہے۔ وہ ثاقب انصاری کی طبیعت سے خوب واقف تھیں۔ اچھے خاصے موڈی انسان تھے۔

شام رات میں ڈھلنے لگی تو دونوں میاں بیوی معمول کے مطابق کھانا کھا کے ٹہلنے نکلے۔ آج بھی ریلوے اسٹیشن تک گئے۔ کچھ ہی دیر وہاں بیٹھے تھے کہ اچانک یاد آیا نہ گھر میں ماچس ہے نہ دودھ ۔ دیر کی تو کہیں دکانیں نہ بند ہو جائیں۔ اس لیے وہ اٹھ کھڑے ہوئے۔ سارے راستے وہ دونوں چپ رہے۔

اگلے روز سہ پہر کو ساشا آئی تو اس کے ہاتھ میں پھولوں کا چھوٹا سا مگر بہت خوب صورت بوکے تھا۔