" ہاں دیکھئے! اتنا خوب صورت تھا میں کسی زمانے میں۔" ان کی آنکھوں میں جگنو سے چمک اٹھے۔
" اب بھی ہیں سر! " بے ساختگی سے تبصرے پر ردعمل کچھ یوں ہوا کہ کمرے میں تینوں کے قہقہے گونج اُٹھے۔
" آپ بھی اچھی لگ رہی ہیں۔"
ساشا نے دلہن دولہا کی تصویر میں والہانہ پن دیکھ کر دھیرے سے کہا۔ مسز انصاری ہولے سے مسکرا دیں۔
" سب یہی کہتے ہیں۔" انہوں نے بات آگے بڑھائی۔
" یہ کون ہیں۔ اچھا سر کے بھائی بہن۔ اچھا یہ ابو امی ہیں اور آپ کے گھر والے اچھا۔۔۔۔ واہ اس خاتون نے بہت بڑھیا سوٹ پہنا ہوا ہے۔ آپ نے زیور کہاں سے بنوایا تھا۔ بہت خوب صورت ہے۔ عروسی جوڑا بھی اچھا ہے مگر یہ نیکلس ۔ کیا یہ ولیمہ کی تصاویر ہیں؟" وہ سوال بھی کر رہی تھی اور جواب بھی خود ہی دے رہی تھی۔ اس لمحے وہ بہت اچھی لگ رہی
تھی۔
" جی۔۔۔۔۔ ان دنوں نیلا' سبز' ارغوانی یا فیروزی رنگ ہی ولیمہ پر پہنا جاتا تھا۔" " نہیں۔۔۔۔ نہیں ابھی بھی کم و بیش ایسا ہی رواج ہے۔" وہ بڑے دلار سے تصویریں دیکھ رہی تھی۔
"مگر اب تو گولڈن اور آف کلرز بھی فیشن میں ان ہیں ناں۔ پہلے انہیں مرکزی اہمیت کہاں دی جاتی تھی۔"
" تم اپنی شادی پر کیسا جوڑا بنواؤ گی بیٹا ؟" مسز انصاری نے ہولے سے پوچھا۔ اس وقت انصاری صاحب کسی کا ایس ایم ایس پڑھنے میں مشغول تھے۔ " پتا نہیں۔ ویسے مجھے بھی آف وائٹ یا آف پنک ہی پسند ہیں، لیکن آپ تو جانتی ہوں گی۔ شادی میں اپنی مرضی کہاں چلتی ہے۔ جو سسرال والے لے آتے ہیں وہی جوڑا پہن لیا جاتا ہے۔ بہت کم لوگ مشورہ کر کے خریداری کرتے ہیں۔ اس کے چہرے پر شرم کی سرخی کے بجائے زردی سی اتر آئی تھی۔
" کہیں بات بات طے ہوئی ہے کیا؟" مسزانصاری نے بات طویل کرنا چاہی۔
" رشتے تو آتے ہیں مگر یا تو بیرون ملک قیام کرنے والوں کے یا پھر اس قدر لالچی کہ کاروبار کرنے یا ملازمت دلانے کے چکر میں الجھے رہتے ہیں۔ فرمائشیں ہی ختم نہیں ہو تیں لوگوں کی ، جہیز بھی منہ کھول کے بے غیرتوں کی طرح مانگتے ہیں جیسے شادی کا بندھن نہ باندھ رہے ہوں۔ بیٹا بیچ رہے ہوں۔ ایسے میں کوئی فیصلہ آسانی سے نہیں ہو سکتا ۔" وہ ایک ہی سانس میں بولے چلی گئی۔
" ہاں یہ مسئلے مسائل تو ہیں۔۔۔۔۔ بڑی ناہمواری ہے معاشرے میں اور مایوسی بھی ہے لوگوں میں۔۔۔۔ نفرت اور خود غرضیوں کے ایسے ہی کئی واقعات سننے میں آ رہے ہیں۔"
" نفرت بھی ایسی ویسی ۔ مہاجر پنجابیوں میں رشتہ نہیں کرنا چاہتے ۔ پنجابی پٹھانوں سے فاصلے پر رہتے ہیں۔" ساشا نے پتے کی بات کہی۔
" بات یہ ہے کہ بعض دفعہ ایڈ جسٹمنٹ دشوار ہو جاتی ہے' اس لیے بھی قوم پرستی کا رحجان غالب آ رہا ہے۔" مسز انصاری نے اپنے تجربے کی روشنی