SIZE
4 / 5

" بس رہنے دو ان کے یہ ڈرامے ۔ یہ ان کا روز کا معمول ہے۔"

" اللہ کے نام پر کچھ کھانے کو دے دو۔" گداگر بچے نے سوال دہرایا۔

" یہ کھانا میں نے جمیلہ اور بچوں کے لیے پیک کروایا تھا۔"

وہ پتا نہیں باہر کھڑے بچے سے بولا تھا یا شاپر میں پیک کھانے سے' میں اسے غور سے دیکھ رہا تھا۔

یکدم اس نے شاپر بچے کی طرف بڑھا دیا ۔

" تم کھا لو مجھے تم بہت بھوکے لگ رہے ہو۔"

کاشف کی آنکھیں پھٹ گئیں۔ شدید بھوک میں اس نے ہاتھ روکا تھا اس کھانے سے کہ وہ اپنے بیوی بچوں کے ساتھ یہ لذت شیئر کرنا چاہتا تھا مگر اس نے یہاں بھی چھکا لگا دیا تھا۔

" اس کی آنکھیں دیکھی ہیں اس کی رگ رگ میں غربت بھری ہے۔ بندے کی آنکھ سیراب ہونی چاہیے۔ میرے اطراف لفظ گھومنے لگے تھے اور کبھی کسی لنچ ٹائم پر ضمیر کا سنایا ہوا شعر مجھ میں ہل چل مچا رہا تھا۔

میری آنکھیں غریب ہیں ورنہ

دنیا کچھ اتنی بھی امیر نہیں

اور واقعی آج وہ غریب دنیا سے امیر ہو گیا تھا۔ آج تک ہم نے جو کھایا تھا' وہ ضائع کیا تھا لیکن آج کا رزق شاید ہمارے اعمال میں کوئی نیکی بن جائے۔ کوئی پر اثر نیکی جو سارے گناہوں کو ڈھانپ لیتی ہے۔ میں نے اپنے جسم کو کانپتے دیکھا تھا۔ میں شاید رو بھی رہا تھا اور ضمیر نے مجھے سمیٹ لیا تھا۔

" مجھے پتا ہے تم کتنے رقیق القلب ہو' تم سے اس بچے کی حالت نہیں دیکھی گئی نا ۔"