بھری ہوئی ہے۔ غربت سمجھتے ہو ناں ، یہ معاشی الٹ پھیر نہیں بس دلی طور پر کنگال ہونے کی نشانی ہے ورنہ ہم نے بھی تو غربت میں آنکھ کھولی ہے مگر ہمارے اندر ایسی کوئی کمی نہیں ہے۔ انسان کی آنکھ سیراب ہونی چاہیے' یہ کیا کہ غربت بندے کی آنکھوں سے جھانکتی ٹپکتی نظر آئے۔ "
میں نے جوتے کی ٹو سے کاشف کو اشارہ دیا تھا کیونکہ وہ اس کی پشت کی طرف سے خراماں خراماں واپس آ رہا تھا۔ کھانا دوستانہ ماحول میں کھایا گیا تھا مگر
اس نے تھوڑا کھا کر ہاتھ کھینچ لیا تھا۔
" کیوں کیا ہوا ، تمہیں کھانا پسند نہیں آیا؟"
" نہیں کھانا بہت اچھا ہے۔ اسی لیے میں نے سوچا جمیلہ اور بچوں کے لیے لیتا جاؤں۔"
کاشف نے مجھے گھور کے دیکھا تھا مگر میں جب تک بات سنبھالتا' وہ کھانے کو پیک کروانے کا آڈر دے چکا تھا۔ کاشف بلبلایا ہوا تھا۔
" بہت ہی گری ہوئی حرکت کی ہے اس نے ۔ پورا کا پورا غربت کا اشتہار ہے یہ چلتا پھرتا۔ آئندہ کبھی تو نے اسے ایسی کوئی آفر کی ناں تو ہم دونوں تیرا گلا گھونٹ دیں گے۔"
میں نے بمشکل انہیں ٹھنڈا کیا تھا۔ ہم ہوٹل سے باہر آئے تھے کہ گاڑی میں بیٹھتے بیٹھتے ایک گدا گر بچے نے شیشہ ناک کیا تھا۔
" دو دن سے کچھ نہیں کھایا۔ اللہ کے نام پر کچھ دے دو صاحب۔ "
ضمیر کے چہرے پر وہی ازلی غربت گومگو کیفیت میں پوری آب و تاب سے جگمگانے لگی تھی۔ مجھے اس کی شکل دیکھ کر ہنسی آنے لگی۔
" معاف کرو ۔ " حفیظ نے بچے کو کہا اور کاشف نے سگنل کی سرخ بتی کو ایک گالی دی۔
" بہت بھوکا لگتا ہے بے چارہ۔۔۔۔" اس نے بہت بے بسی سے کہا۔