SIZE
2 / 5

وہ پزل ہو گیا پھر ہم باہر نکلے۔ کاشف نے کار کی چابی اسے دی۔ اس نے اسلام علیکم کہا اور ضمیر پورے سلام کا جواب دینے بیٹھ گیا، میں نے اس کی طرف نہیں دیکھا اور اندر کی طرف قدم بڑھا دیے۔

" یہ بھی ایک ہی فلم ہے۔ دیکھ لینا اس کے بیوی بچوں کی خیریت لے کر ہی آئے گا۔" میں منہ دبا کر ہنسنے لگا تھا۔ ضمیر بہت خوش آیا تھا۔

"بہت اچھا انسان ہے بہت عزت سے بات کی۔"

میرے منہ میں کھجلی ہوئی کہ پوچھوں، پہلی بار کب کسی نے تم سے عزت سے بات کی تھی ' کچھ یاد ہے۔ کیونکہ جو باتیں ہماری زندگی میں کم کم ہوں، وہی اچھی لگتی ہیں۔ جیسے بیوی کی شاپنگ' بچے اور ضمیر جیسے لوگوں کے لیے عزت سے مخاطب کیا جانا۔

ضمیر ہوٹل کی آرائش کو بہت توجہ سے دیکھ رہا تھا۔ ٹیبل پر رکھے آرائشی چمچوں اور کانٹوں کو وہ بار بار چھو کر دیکھتا۔

" کافی مہنگے لگتے ہیں۔"

" ہوں -" کاشف نے آہستگی سے جواب دیا ۔

پھر مینیو کارڈ پر قیمت دیکھ کر ہی اس کی روح فنا ہونے لگی " یہ چائے سو روپے کی۔ آخر ایسا کیا خاص ہے اس چائے میں دودھ انگلینڈ سے آتا ہے کہ پتی سونے کے مول ملتی ہے۔"

" آج کل تو چینی سونے کے مول مل رہی ہے ۔"

کاشف نے جان بوجھ کر اس کی رگ غربت کے ساتھ چھیٹر چھاڑ کی اور وہ موجودہ حالات اور حکمرانوں پر پیپر پڑھنے لگا۔ حفیظ نے مشکل سے اسے مینیو کی طرف واپس پلٹایا پھر اس نے اپنے تئیں سب سے کم قیمت ڈش کو ٹک مارک کیا تھا۔ وہ ڈش ٹک مارک کر کے واش روم کے لیے چلا گیا تھا اور کاشف نے اس کے جاتے ہی اس کے بجائے میرے لتے لیے تھے۔

" تمہیں ضرورت کیا تھی اسے آفر کرنے کی۔ آنکھیں دیکھی ہیں۔ کتنی غریب ہیں اس کی' حلیہ تک تو ٹھیک نہیں ہے اس کا' اس کی رگ رگ میں غربت