" اسی لیے تو آپ سے کہتا رہتا ہوں کہ جلد از جلد اپنے لیے ایک چاند سی بہو بھی ڈھونڈ لیں تاکہ زارا کے جانے کے بعد آپ کا جی تو لگا ر ہے اور پھر پوتے پوتیاں ہونے کے بعد تو گھر میں ہردم رونق رہا کرے گی۔"
"چل بے شرم !" انہوں نے ہنستے ہوئے اس کے دھپ رسید کی وہ بھی ہنستے ہوئے اٹھ گیا تھا۔ عادل نے تو مذاق میں یہ بات کی تھی لیکن وہ واقعی چاہ رہی تھیں کہ کوئی اچھی سی لڑکی ملے تو اس کی بات بھی طے کردیں۔ زارا کی بات تو ان کے میاں کے دور پار کے عزیزوں میں دو سال پہلے طے پا چکی تھی ۔ اب اس کے سسرال والے شادی پر زور دے رہے تھے لیکن ان کی خواہش یہی تھی کہ جلد از جلد عادل کے لیے بھی کوئی لڑکی پسند کرلیں۔ دونوں بہن بھائیوں کے فرض سے وہ اکٹھا ہی سبک دوش ہونا چاہتی تھیں تاکہ بیٹی گھر سے جائے تو بہو گھر میں آئے لیکن اکلوتے بیٹے کی دولہن تلاش کرنا کوئی آسان کام تھوڑی تھا۔ وہ تو سبزی اور گوشت کی خریداری بھی خوب چھان پھٹک کر کرتی تھیں، بہو کا انتخاب جلد بازی میں لیے کرلیتیں۔ سو یہ مہم اب تک سرنہ ہو پائی تھی لیکن پھر ایک دن انوار صاحب جو گھریلو معاملات میں بالکل دخل نہیں دیتے تھے نے انہیں آڑے ہاتھوں لیا۔
" آپ یونہی وقت گزارتی رہیں تو بات نہیں بنے کی بیگم صاحب! ہم خود بیٹی والے ہیں۔ خدا کا شکر ہے کہ مناسب وقت پر اس کا رشتہ طے پا گیا۔ اگر خدانخواستہ ہماری زارا کو بھی ان ہی مرحلوں سے گزرنا پڑتا جس سے رشتہ طے ہونے سے پہلے دوسری لڑکیاں گزرتی ہیں تو سوچیں ہمارے دل پر کیا بیتتی۔ یوں گھر گھر جا کر رشتہ تلاش کرنے کی مہم کواب ترک کردیں اور جتنی لڑکیاں آپ دیکھ چکی ہیں ان میں سے جو آپ کے جی کو کچھ بھلی لگی ہے اس کے لیے ہاں کر دیں ورنہ خوب سے خوب تر کی تلاش میں یونہی وقت گزرتا جائے گا۔"
انہوں نے رسانیت سے بیوی کو سمجھانا چاہا تھا اور اس بار بات ان کی سمجھ میں بھی آ ہی گئی۔ سو مزید لڑکیاں دیکھنے کا ارادہ ترک کر کے انہوں نے انوار صاحب کے دوست کی بھانجی تانیہ کے لیے ہاں کر دی۔ جاڑے کی ایک