دو گھڑی کھڑا ہونا بھی محال ہے۔" رفیعہ نے اس بار بیٹی کی سائیڈ لی۔
" امی! اب ایسا بھی گرمی سے کیا گھبرانا، صبح اس کا بس چلے تو سب کو دلیے اور لسی پر ٹرخا دے۔ دوپہر کو اکثر و بیشتر چاول پکا لیتی ہے تاکہ روٹی پکانے کا جھنجٹ ہی نہ کرنا پڑے' ورنہ ہر تیسرے دن کدو کا رائتہ۔ ادل بدل کے یہی چیزیں پکتی رہتی ہیں۔ " عادل خاصا خوش خوراک تھا مگر جب سے کچن زارا نے سنبھالا تھا' اسے حسب فرمائش کھانے کو نہ ملتا۔
" گڈ آئیڈیا عادل بھائی! میرے تو ذہن میں آیا ہی نہیں کہ آج کدو کا رائتہ بنا کر بھی کام چلایا جا سکتا ہے۔" اس نے ہنستے ہوئے سبزی کے تھیلے میں سے بڑا سا کدو برآمد کیا۔ رفیعہ بھی ہنس پڑی تھیں۔
" امی ! آپ ہنس ہنس کر اسے اور شہہ دیں۔" عادل خفا ہوا۔
" اچھا میرے بچے! ناراض کیوں ہوتا ہے۔ چل زارا! فریزر میں سے قیمے کا شاپر نکال کر پانی میں ڈال دے اور ٹوکری اور چھریاں لے آ۔ سبزی ہم دونوں ماں بیٹی مل کر بنا لیتے ہیں۔ سالن میں خود پکا لوں گی۔" انہوں نے درمیانی راہ نکالی زارا سر ہلاتے ہوئے مڑ گئی۔
" امی ! آپ زارا سے بے جا لاڈ پیار کرتی ہیں۔ اب اس گرمی میں اس کی جگہ خود جا کر کچن میں کھڑی ہو جائیں گی۔ کمر میں آپ کے ویسے ہی درد ہے۔" اچھا بس کر عادل تو بھی بہن کے پیچھے ہی پڑ جاتا ہے۔ جب سے پڑھائی ختم ہوئی ہے تب سے سارا گھر زارا نے ہی تو سنبھال رکھا ہے۔ بس اس موسم میں چولہے کا کام کرنے سے گھبراتی ہے۔ ہے بھی تو دھان پان سی اور پھر اس گھر میں کتنے دن کی مہمان ہے۔ کرلے جتنے عیش کرنے ہیں، اس کے جانے کے بعد کتنا سونا ہو جائے گا یہ گھر ۔" ان کی آنکھوں میں ایک دم نمی اتر آئی تھی۔
" افوہ امی ! ایک تو آپ جذباتی ہونے میں دیر نہیں لگاتیں ۔" عادل نے ان کی آنکھوں میں چمکتے آنسو دیکھ لیے تھے' جب ہی فوراََ ان کے قریب آ کر اپنا بازو ان کے گرد پھیلایا۔