" یہ فضول بات ہے ؟ آج کل رشتوں کی شروعات ہی تصویر سے ہوتی ہے۔" انہوں نے اپنی بے وقوف بہن کو گھورا۔
" وہ بھی پارلر سے تیار ہو کر فوٹو گرافر سے کھنچوائی ہوئی تصویر ہے۔" مینا نے لقمہ دیا پھر مزید کہنے لگی۔
"میری سمجھ میں نہیں آتا کہ بیوٹیشن اور فوٹوگرافر کی مہارت کا شاہکار دیکھ کر لوگ کسی لڑکی کی سیرت کا اندازہ کیسے لگا سکتے ہیں۔ اس کے کردار اور اخلاق کے بارے میں کیسے جان سکتے ہیں اور پھر جو لوگ محض ایک خوبصورت تصویر دیکھ کر لڑکی سے ملنے یا دوبارہ دیکھنے آتے ہیں ، وہ تصویر کے برعکس ایک عام سا اصلی چہرہ دیکھ کر کیوں نہ پلٹ جائیں گے؟"
" فضول باتیں مت کرو۔" مینا کی سلیس گفتگو بجیا کو بے سروپا ہی لگ رہی تھی اس لیے انہوں نے سختی سے اسے گھرکا ۔
" آج کل یہی رواج چل نکلا ہے ، اچھی تصویر دیکھ کر دس لوگ آئیں گے تو ان میں کوئی تو اچھی سیرت کا قدردان ہو گا، کوئی تو تمہاری صلاحیت کردار اور سلیقے کا معترف ملے گا۔ " بجیا کے لہجے اور لفظوں میں بڑا یقین تھا۔
" اور باقی نو؟" وہ جس جس طرح مسترد کر کے جائیں گے وہ؟" مینا نے سنجید گی سے سوال اٹھایا۔
" بھئی اب یہ تو قسمت کی بات ہے۔ "ہاں" تو وہیں سے ہوگی جہاں قسمت ہو گی تمہاری۔" بجیا نے کچھ گڑبڑا کر جواب دیا۔
" جس نے جہاں میری قسمت لکھی ہے وہی میرا نصیب خود میرے سامنے لے آئے گا۔ بہتر نہیں ہے کہ ہم یہ معاملہ اللہ پر چھوڑ دیں۔"
" ایک تو تم بات کو کہاں سے کہاں لے جاتی ہو؟" بجیا زچ ہو گئیں۔
" آخر تصویر کھنچوانے میں کیا قباحت ہے؟" انہوں نے سوال کیا۔
" بہت بڑی قباحت ہے۔" مینا نے ہنوز سنجیدگی سے بجیا کی جانب دیکھا۔ "ایک خاص اسی مقصد کے لیے اپنی تصویر کھنچوانا اپنی توہین بھی لگتی ہے اور وہ ایمان اور توکل بھی متزلزل ہوتا ہے جو اللہ پر ہے۔"
" اپنے آپ کو مین ٹین رکھنا تو عورت کا بنیادی اور پیدائشی حق ہے۔" بجیا نے