کمزور لہجے میں دلیل دی۔
" مگر کس کے لیے؟ کیا ساری دنیا کے لیے یا فقط ایک اس فرد کے لیے جو ہماری زندگی میں شامل ہو کر ہماری دنیا بن جاتا ہے؟" مینا نے سوال کیا۔
" اب وقت بہت بدل گیا ہے، وہ دور گیا جب لوگ ایسی باتوں سے متاثر ہوتے تھے یا ان پر عمل کرتے تھے، اب تو بس افراتفری ہے، نفسانفسی ہے۔ " بجیا کچھ سوچ کر ملول ہو گئیں۔ لمبے چوڑے خاندان میں کئی رشتے تھے بہن کے جوڑ کے مگر؟"
” جب سے دنیا بنی ہے، کچھ نہیں بدلا۔ وہی رحمان ہے ، وہی شیطان اور وہی انسان ' وہی خیر و شر کی جنگ ہے، بس اس جنگ کے انداز اور طور طریقے ہر دور میں الگ الگ ہیں۔ "مینا کے لہجے میں سنجیدگی در آئی۔
" تو تم تصویر نہیں بنواؤ گی؟" بجیا نے ایک گہری سانس لے کر اپنی نرم خو بہن کو دیکھا جو ان سب معاملات میں نہ جانے کیوں بے حد ضدی اور ہٹ دھرم بن جاتی تھی۔
" اچھا ایک بات بتائیے۔" مینا نے ان کے لہجے کی مایوسی اور کچھ کچھ ناراضی پر مسکرا کر انہیں دیکھا۔
کیا؟"
" جب پہلے وقتوں میں تصویروں کا رواج نہیں تھا؟ تب لڑکیوں کے رشتے کیسے ہوتے تھے؟" مینا نے سوال کیا۔
" وہ دور کچھ اور تھا جب لوگ خاندان دیکھتے تھے' شرافت دیکھتے تھے ، صورت کے نہیں بلکہ سیرت کے قدردان تھے۔ رشتوں میں خلوص ، محبت اور اپنائیت تھی ۔ خاندان کی لڑکیاں زیادہ تر خاندان میں ہی کھپ جاتی تھیں۔ اب لوگوں کی ترجیحات کچھ اور ہیں۔ بے تحاشا دولت، بے تحاشا خوبصورتی' اعلا اسٹیٹس۔ بس اکثریت لوگوں کی یہی ڈیمانڈ ہے۔ پہلے وقتوں کی سوچ تو جیسے اب خواب و خیال ہو گئی ہے۔" بجیا نے بولتے بولتے ایک گہری سانس لی۔
"تم کیا سمجھتی ہو، ہمیں اچھا لگتا ہے یہ سب ؟ لوگ آتے ہیں اور کھا پی کے چلے جاتے ہیں۔ الٹے سیدھے اعتراضات کرتے ہیں، نقص نکالتے ہیں۔ کیا ہمارا دل نہیں دکھتا اور دوسرے لوگوں کی باتیں ، ہمدردیاں تمہارے ساتھ ساتھ ہم بھی سنتے ہیں اسی لیے تو۔" وہ بولتے بولتے چپ ہو گئیں۔
" اسی لیے تو کوشش کر رہے ہیں کہ جلد سے جلد تم اپنے گھر کی ہو جاؤ تاکہ ہم بھی اپنے فرض سے سبکدوش ہو جائیں۔
" جلد سے جلد ؟ "مینا نے بجیا کو دیکھا۔
"اللہ سے جلدی نہیں عافیت مانگتے ہیں یہ کام اللہ کے مقرر کردہ وقت پر ہی ہوتا ہے۔" وہ آہستہ سے بولی اور کھڑی ہو گئی۔
" میں شربت بناتی ہوں آپ کے لیے۔"