" لوگ اچھے رشتے ہی ڈھونڈتے ہیں' اب ایسے منہ اٹھا کے تو کرنے سے رہے۔ کچھ نہ کچھ دیکھ بھال کر ، سوچ سمجھ کر ہی شادی کی جاتی ہے۔ لڑکے کی شخصیت، آمدنی ، فیملی ، گھر بار سب ہی کچھ دیکھ کر ”ہاں " کی جاتی ہے۔" وہ شروع ہو گئیں۔
"اور اللہ پہ بھروسہ؟"
”ہاں، وہ بھی ہوتا ہے۔ ظاہر ہے اللہ پر بھروسا کر کے ہی انسان اتنے بڑے کام کے لیے ہامی بھرتا ہے' مگر تمہارا مطلب کیا ہے، آخر کیا کہنا چاہتی ہو؟" بجیا کچھ الجھ کر بولیں۔
"کچھ نہیں مجھے کیا کہنا ہے بھلا۔"
مینا نے ایک گہری سانس لی۔ مسئلہ تو سارا یہ تھا کہ بہنوں کے نظریات مینا کی سمجھ میں نہیں آتے تھے اور مینا کے خیالات سے ان لوگوں کو اتفاق نہیں تھا اور ظاہر ہے کہ اس چکا چوند کر دینے والی پل پل رنگ بدلتی دنیا میں بلیک اینڈ وائٹ زندگی پر یقین رکھنے والے مینا جیسے افراد شاید کم ہی تھے۔ وہ ان لوگوں میں سے تھی جو ایک طرف کنارے پر بیٹھ کر زیر لب مسکراتے ہوئے ان لوگوں کو دیکھتی تھی جو زندگی کی دوڑ میں ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی خواہش اور کوشش میں ہلکان ہوئے جارہے تھے۔ بھاگ رہے تھے اور ہانپ رہے تھے ۔
" اپنا حلیہ درست رکھا کرو' دنیا کے ساتھ چلنا سیکھو ورنہ سب سے پیچھے رہ جاؤ گی۔ " آپی اسے عموما " ٹوکتی ہی رہتی تھیں اس کے سادہ سے انداز و اطوار پر اور خصوصاََ تقریبات وغیرہ میں جانے کے موقع پر تو اس کی شامت ہی آتی تھی۔
" کیا فرق پڑتا ہے۔ آگے ہو جاؤ' پیچھے ہو جاؤ یا کسی کے برابر؟ مجھے تو ویسے بھی بس ایک طرف بیٹھنے میں مزا آتا ہے۔" مینا نے مسکراتے ہوئے ان کی خفگی کم کرنے کی کوشش کی مگر وہ الٹا اور ناراض ہو گئیں۔
" اپنے یہ فلسفے اپنی کہانیوں میں ہی لکھا کرو۔ عملی زندگی میں یہ سب باتیں بالکل نہیں چلتیں۔ دیکھتی نہیں ہو ، آج کل لڑکیاں خود کو کیسے مین ٹین رکھتی ہیں۔ سب سے الگ تھلگ ایک طرف بیٹھو گی تو خدانخواستہ ۔۔۔۔" وہ کچھ کہتے کہتے رک گئیں۔
" خدانخواستہ کہیں بیٹھی ہی نہ رہ جاؤں۔ ہے نا !"
مینا نے ان کا ادھورا فقرہ مکمل کیا۔
" اللہ نہ کرے۔" انہوں نے دہل کر مینا کی طرف دیکھا۔