پانچ شادی شدہ اور بہت عرصے سے شادی شدہ بہنوں کی سب سے چھوٹی اور ہنوز غیر شادی شدہ بہن ہونا کتنی درد سری کا معاملہ ہے ، یہ تو بس مینا کا دل ہی جانتا تھا۔ حالانکہ وہ بے چاریاں تو مینا کی محبت میں بھاگ دوڑ کرتی رہتیں، کوششوں میں لگی رہتیں کہ کسی طرح ان کی یہ عزیز از جان چھوٹی بہن بھی ان ہی کی قطار میں کھڑی ہو جائے مگر جب تک کاتب تقدیر کی مقرر کردہ گھڑی نہ آتی اس مبارک موقع کے لیے تب تک بھلا کس کی کوششوں اور کاوشوں کو کامیاب ہونا تھا؟
یہ بات مینا کہتی تھی اور سمجھتی تھی، اسی لیے بڑے آرام سے قسمت پر تکیہ کیے بیٹھی تھی۔ اللہ پر بھروسا کر کے خود کو تسلی دے لیتی مگر ان سب کا کیا علاج جو تقدیر کے ساتھ ساتھ تدبیر پر اور کوششوں کے بھی قائل تھے۔
"جب تک ہم خود ہاتھ پاؤں نہیں ہلائیں گے رشتہ کوئی آسمان پر سے ٹپکے گا؟" یہ بجیا کا قول تھا۔
" تو اور کیا' جب تک چار لوگوں سے کہیں گے نہیں، بات نہیں بنتی۔ کیا کیا جتن کرنے پڑتے ہیں، تب کہیں جا کر کوئی ڈھنگ کا رشتہ ملتا ہے۔ " آپا بھی بجیا کی ہاں میں ہاں ملاتیں۔
اب اس " جتن " اور " کوشش" کے نام پر بے چاری لڑکیاں کیسے کیسے ایکسپلائٹ ہو رہی تھیں اور کی جا رہی تھیں۔ اگر مینا اس پر لب کشائی کرتی تو اسی وقت دونوں اطراف سے کئی بار کا سنا ہوا لیکچر سننے کو ملتا مگر پھر بھی آپا کی بات پر وہ بولے بغیر نہ رہ سکی۔
" آخر یہ " ڈھنگ کا رشتہ " کیا ہوتا ہے؟ ڈھنگ کا رشتہ ملنا کیا آئندہ کے لیے پائیدار خوشیوں کی ضمانت ہے؟ اچھی زندگی گزرے گی گارنٹی ہے؟"
"یہ کیا بات ہوئی بھلا؟" آپا جزبز ہو ئیں۔