SIZE
3 / 8

عمراس کی کیا چاکری ہی کرتی رہوگی۔ اس کا کیا ہے۔ کھانا پینا مل رہا ہے ' ہر چیز تیار مل رہی ہے۔ وہ اتنا سیدها نہیں ہے جتنا دکھائی دیتا ہے۔ تم ذرا کل بدلو۔ پھر دیکھنا اس کا روپ۔ تم ابھی بچی ہو۔ کیا جانولوگ کیسے کیسے نقاب چڑھائے پھر رہے ہیں۔ اس کا اپنا تو کوئی ہے نہیں یہاں کراچی میں۔ سو تمہیں بھی اپنوں سے دور رکھ کر اپنے اکیلے پن کی بھڑاس نکال رہا ہے۔ نہیں لا تا تو بیگ اٹھاؤ رکشہ کرو اور آ جاؤ۔ پھر دیکھنا کیسے سیدھا ہوتا ہے۔ بلاوجہ رعب میں رکھا ہوا ہے تمہیں' اس کی مرضی سے چلو ' اس کا حکم مانو۔ اچھا سنوماسی آ گئی۔ میں چلتی ہوں۔ انتظار کروں گی۔ تمہارے بھائی لاہورسے آئیں گے تو چکر لگاؤں گی' ابھی ذرا پیروں کا درد بھی بڑھا ہوا ہے تو سڑکوں پر بھاگ دوڑ کی ہمت نہیں۔ خیال رکھنا گڑیا اپنا۔ اللہ حافظ۔"

سارہ بھابی نے لائن کاٹ دی تو وہ موبائل کی اسکرین کو تکتے ہوئی گہری سوچ میں ڈوب گئی۔

فائز آفس سے آیا تو حسب معمول فریش ہو کے ٹی وی کے سامنے آ بیٹھا۔ وہ اسپورٹس کا شوقین تھا تو عموما" فارغ وقت میں یہی اس کی تفریح کا ذریعہ بھی ہوتا تھا۔ فرح چائے لے آؤ یار۔ بڑی تھکن ہو رہی ہے۔ آج تو کمپیوٹر کے سامنے بیٹھے بیٹھے کمر ہی اکڑ گئی ہے میری۔ فائز نے آواز لگائی تو فرح جو پہلے ہی جائے چڑھا چکی تھی کپ میں چاۓ نکال کر لاؤنج میں فائر کے پاس ہی ا بیٹھی۔

" سنیں آج سارہ بھابی کا فون آیا تھا۔“

”اچھا! خیریت ؟ فائز نے چائے کی چسکیاں لیتے ہوۓ کہا۔ اس کی نظریں بدستور ٹی وی کی جانب تھیں۔

" کیا مطلب؟ اب میرے میکے والے مجھے فون بھی نہیں کر سکتے ؟" فرح نے ایک دم ہی آنکھیں نکالیں۔