SIZE
4 / 8

”ارے کیا ہوا یار۔ میں تو ایسے ہی پوچھ رہا ہوں۔ کیا کہہ رہی تھیں ؟“ فائز اس کا بدلہ ہوا لہجہ دیکھ کر سنبھل کر بولا۔ آپ اس کا رخ بھی فرح کی جانب تھا۔ " یاد کر رہی تھیں' کہہ رہی تھیں کہ چکر لگاؤ۔ کل اتوار ہے۔ چھٹی ہے لے کر چلیں۔"

فرح کی آنکھیں بدستور ماتھے پر تھیں۔ فائز کو خوب پتا تھا کہ بھابی کا فون آتے ہی فرح کے تیور بدل جاتے ہیں۔ مگر وہ صلح جو بندہ تھا۔ فرح کی فطرت سے بھی اچھی طرح واقف تھا کہ وہ جلد دوسروں کے کہے سنے میں آ جاتی ہے وگرنہ بلاشبہ وہ ایک سعادت مند اور محبت کرنے والی بیوی تھی۔ اس لیے فائز نے اس کے کڑے تیوروں کے باوجود اپنا لجہ نارمل رکھا۔

" یار! اصل میں کل تو مجھے بائیک صحیح کرانی ہے۔ بہت تنگ کر رہی ہے۔ پھر پورا ہفتہ ٹائم نہیں ملتا اور شام میں آفس کے ایک کولیگ کی شادی میں جانا ہے۔"

" بس پتا تھا مجھے۔ آپ کے پاس بہانوں کی ایک طویل فہرست تیار ہو گی۔ آپ کیا چاہتے ہیں کہ میں میکے سے تعلق توڑ ڈالوں۔ بس آپ کی اور آپ کے بچوں کی خدمت میں لگی رہوں۔ میں کوئی کٹھ پتلی ہوں کہ آپ کے اشاروں پر چلوں اور ناچوں۔ نہ لے کے جائیں۔ میں خود چلی جاؤں گی۔ محتاج نہیں ہوں میں آپ کی۔" فرح آپے سے باہر ہونے لگی تو فائز کا مضبط بھی جواب دے گیا۔

" یہ کیا طریقہ ہے بات کرنے کا فرح ۔ یہ بچے اور گھر تمہارا نہیں کیا؟ میں نے تم پر کون سی پابندیاں لگائی ہوئی ہیں۔ بناتے ہیں پروگرام پھر چلیں گے۔ تم بلاوجہ دوسروں کی باتوں میں آ کر اپنے گھر کا سکون برباد کرنے پر کیوں تلی ہوئی ہو۔"

" رہنے دیں آپ۔ میں بچی نہیں ہوں کہ دوسروں کی باتوں میں آ جاؤں یا آپ کے بہلاووں سے پھر بہل جاؤں۔"

وہ پیر پٹختی ہوئی بیڈ روم میں چلی گئی تو فائز نے بھی غصے میں آ کر میز کو ٹھوکر ماری اور گھر سے باہر نکل گیا۔ مرد کو گھر میں سکون نہ ملے تو وہ باہرہی بھاگتا ہے۔ قریبی پارک میں چہل قدمی کے بعد جب اس کا موڈ بحال ہوا