ماں بہنوں کی محبت کو اپنے اوپراس قدر حاوی نہ ہونے دیجیئے گا کہ آپ اسی کی تلفی کر بیٹھیں جو آپ کی خاطر اپنا سب کچھ چھوڑ کر آئی ہے۔"
صارم بے ساختہ مسکرایا تھا۔ اپا کی باتوں نے لاشعوری طور پر اسے عجیب شش وپنج میں مبتلا کر دیا تھا۔ وہ خود کو ان دیکھے بوجھ تلے دبا محسوس کر رہا تھا لیکن تہذیب کی باتوں نے گویا کوئی کھڑکی سی کھول دی تھی۔ جس سے ایک تازہ جھونکا اندر سے آیا تھا۔ اسے اپنی چھوٹی بہن پر بے ساختہ ٹوٹ کے پیار آیا۔ محبت سے اپنے بازو کے گھیرے میں لے لیا۔
" ہماری چھٹکی اتنی بڑی ہو گئی اور ہمیں پتا ہی نہیں چلا۔" وہ باپ جیسے شفیق بھائی کا پیار لیتی مطمئن سی اپنے کمرے میں آ گئی۔
ہمیشہ کی طرح پاکیزہ سی صبح اُتری تھی۔
اماں نماز کے بعد معمول کی تسبیحات میں مصروف ہو گئیں۔
فیروزی رنگ کے کامدارسوٹ میں ملبوس نکھری نکھری زوبیا گول میز کے گرد رکھی کرسیوں پر سب کے ساتھ آ کر بیٹھی جہاں تہذیب گرما گرم ناشتہ لگا رہی تھی۔
" لیجیئے بھابھی جان! زندگی کی نئی صبح اپنی نند کے ہاتھوں سے بنے ذائقہ دار ناشتے سے لطف اندوز ہوں' گو کے آپکی نند کافی سگھڑ واقع ہوئی ہے لیکن گھریلو امور میں آپ کے تعاون کی طلب گار رہے گی۔"
تہذیب کے شگفتہ انداز پر زوبیا نے مسکرا کر سر ہلایا تھا اور ناشتے کے بعد کر اٹھ کر تہذیب کے ساتھ برتن وغیرو سمیٹنے لگی۔ دونوں آہستہ آواز میں باتیں کرتیں مسکراتی ہوئی کچن کی طرف بڑھ گئی تھیں۔
" بڑی چلتر لڑکیاں ہیں بھئی آج کل کی' شادی کے بعد پہلی صبح میرا تو مارے شرم کے سر اہپر اٹھ ہی نہیں رہا تھا۔ ہاں بھائی عقلمند مائیں' بیٹیاں پڑھا سمجھا کر ہی اگلے گھر روانہ کرتی ہیں۔ ایسے تو نہیں میاں گرویدہ ہوۓ جاتے۔"
صارم کے اٹھ کر جانے کے بعد آپا نخوت سے کہہ رہی تھیں۔ بھائی کے چہرے پر پھیلی طمانیت اور بیوی کی طرف اٹھتی وارفتہ نگاہیں جو انہیں سمجھا گئی