تھیں یہ اسی کھولن کا نتیجہ تھا۔
تسبیح کے دانوں پر اماں کی گرفت مضبوط ہو گئی تھی۔
ٹھیک تو کہہ رہی ہے گل افشاں ! مارے شرم و لاج کے کمرے سے نکلنا دوبھر ہو جاتا تھا اور یہ آج کل کی نئے زمانے کی لڑکی بے دید بد لحاظ لڑکیاں۔۔۔۔"
سوچ کا زہریلا دھواں صبح کی پاکیزگی کو آلودہ کر رہا تھا۔
اس نے ایک مسکراتی ہوئی نگاہ ابر آلود آسمان پر ڈالی۔ بارش کی شفاف ننھی منی بوندیں گر رہی تھیں۔
" آج کھانے میں بریانی بنا لیتے ہیں۔" وہ اجازت لینے اماں کے کمرے کی طرف چل دی چھوٹے موٹے امور کے لیے اماں کی اجازت طلب کرنے کی عادت ہی ہو گئی تھی۔
" کوئی ضرورت نہیں ہے۔ خوامخواہ گھر کا بجٹ خراب ہو گا۔ آلو مٹررکھے ہیں وہی پکا لو۔ اماں نے فی الفور انکار کیا تھا۔
بجٹ خراب ہوتا یا نہ ہوتا بہو کا دماغ ضرور خراب ہو جاتا ۔ آپا جانے پہلے کہہ کر گئی تھیں۔ "ایسے اس کی ہاں میں ہاں ملاتی رہیں تو دیکھیے گا وہ کل کی لڑکی آپ کو دیوار سے لگا دے گی۔ گھر کے کام بے شک اس کے ذمے لگا دیں لیکن کنٹرول اپنے باتھ میں ہی رکھیں۔"
" اور وہ وہی تو کر رہی تھیں۔ زوبیا چپ چاپ کچن میں آ کر مٹر کے دانے نکالنے لگی۔
اماں ٹھیک سے میں اپنا ڈوپٹہ لپیٹتیں چاشت کی نماز کی نیت باندھنے لگیں۔
" ارے واہ بھابھی!"
ایک بھرپور نیند لینے کے بعد تہذيب باہر آئی تو اسے حیرت کا خوش گوار جھٹکا سا لگا تھا۔ صاف ستھرا صحن' کیاریوں میں دھلے' نکھرے لہلاتے پودے' عقبی صحن میں تار پر پھیلے ہوا کے سنگ لہراتے دھلے کپڑے۔
" آپ کے اندر ایسی کون سی مشینری فٹ ہے جو دن بدن تیز سے تیز تر ہوتی