آ گئی۔ تہذیب کو وہ واقعی بھابھی کے روپ میں بہت پسند آئی۔
کلف لگے سفید شلوار قمیض میں صارم بہت خوش اور مطمئن لگ رہا تھا۔
" صارم میرے بھائی! ابا کے بعد تم ہی ہمارا سہارا ہو۔ تم جانتے ہو نا کہ اماں کس طرح تم پر جان چھڑکتی ہیں۔ ہم دونوں بہنوں کے مقابلے میں ہمیشہ تمہیں ہی ان کی زیادہ چاہت اور توجہ ملیاور ہم دونوں بہنوں کا تو ٖخر ہی تم ہو۔ شادی کے بعد بہت کچھ بدل جاتا ہے۔ رشتے' ذمہ داریاں' ترجیحات ' لیکن تم مت بدلنا ' میں یہ نہیں کہہ رہی کہ اپنی بیوی کو اہمیت نہ دینا' میں یہ کہہ رہی ہوں ' اس کے آنے کے بعد تمہاری زندگی میں ماں' بہنوں کی
اہمیت کم نہ ہونے پاۓ ۔"
اپنے کمرے میں جانے کے لیے پر تولتے صارم کے گرد آپا نے جذباتی حصار سا کھینچ دیا تھا۔ مدھم شیریں آواز میں بولتی گاہے بگاہے اس کے چہرے پر بھی نگاہ ڈال لیتیں۔ تہذیب نے بے ساختہ پہلو بدلا تھا۔ آپا جو "کہنا" چاہ رہی تھیں نہ جانے صارم سمجھ رہا تھا کہ نہیں ' البتہ وہ خوب سمجھ گئی تھی۔
" آپ فکر مند نہ ہوں آپا! میں اپنے فرائض میں کوئی کوتاہی نہیں کروں گا۔" صارم کا لہجہ مضبوط تھا۔ " اماں اور آپ لوگ ہی میری پہلی ترجیح ہیں۔" آپا کے چہرے پر بے ساختہ اطمینان چھلکا تھا۔ قدرے اُچک کر لمبے چوڑے بھائی کی پیشانی چومتی وہ وہاں سے اٹھ گئی تھیں۔
" بھائی! " دروازے کے ہینڈل پر رکھا اس کا ہاتھ تھما تھا۔ گردن موڑ کر عقب میں دیکھا۔ تہذیب قدم قدم چلتی قریب آ گئی تھی۔
" اماں اور ہماری زندگی میں آپ کی کتنی اہمیت ہے' یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہر رشتے کا اپنا مقام ہوتا ہے۔ سب کی اپنی جگہ' اپنی اہمیت یہ تو ہمارا اپنا غیر متوازن رویہ ہوتا ہے جو رشتوں میں بگاڑ پیدا کرتا ہے۔ آپا نے سچ کہا کہ شادی کے بعد بہت کچھ بدل جاتا ہے۔ اس حساب سے آپ پر دوہری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ اگر ایک طرف جھکیں گے تو دوسرا پلڑا اوپر اُٹھ جائے گا۔ ان میں توازن پیدا کرنا اور اسے برقرار رکھنا آپ کی زمہ داری ہے۔