SIZE
2 / 12

" ہاں تو بیٹا ! میں کہہ رہی تھی کہ جو کمانا لا کر اپنی ماں کے ہاتھ پر رکھنا۔ تمہارے بھلے کے لیے کہہ رہی ہوں۔"

" بالکل نہیں دانی بھائی! کچھ رقم اپنےہاتھ میں بھی رکھنا۔" منا بولا۔

" اس جاہل کی مت سنو۔" خالہ نے اپنے ایف اے پاس بیٹے کو جاہل بناتے ہوۓ لمحہ نہیں لگایا تھا۔

" تمہاری بیوی بڑی چوٹی ہے اس کو ہر گز مت بتانا کہ یہ تمہاری کمائی ہے۔"

" جی خالہ۔" دانی سعادت مندی سے بولا۔

" اور سنو بیٹا! اب یہ نومی اور منا آئیں تمہاری دکان پر تو بیٹا کر ریٹ مناسب رکھنا۔"

حسب عادت ان الفاظ الٹ گئے۔ ہنس ہنس کر نومی اور منا لوٹ پوٹ ہو گئے۔ دانی بھی خالہ کی گھوریوں کے باوجود ہنس پڑا۔ منا قریب تھا خالہ نے ایک ہاتھ اس کو جڑ دیا۔ مگر وہ ہنستا رہا۔

" اچھا خالہ' چلتا ہوں۔" دانی سلام کر کے باہر نکل گیا۔

" بڑی بے چینی میں رات کٹی آپا! دل چاہتا تھا کہ اڑ کر آپ کے پاس پہنچ جاؤں۔“ خالہ صبح ناشتہ کرتے ہی اپنی بہن کے گھر پہنچ گئی تھیں۔ ”دانی بتا رہا تھا کہ اس نے کرائے کی دکان ڈالی ہے۔"

" ہاں ڈالی تو ہے۔" آپا بولیں۔

چائے بناتی ہوتی رابعہ کو دیکھ کر خالہ آہستہ سے بولیں۔ " آپا پیسہ کہاں سے آیا دکان کے لیے۔"

" کہاں سے آتا خالہ' میرا زیوربیچا ہے۔" رابعہ نے آواز سن ہی لی۔

" اچھا اچھا زیوربیچا ہے تمہارا۔" خالہ نے سکون کا سانس لیا اور بولیں۔ "میں تو ڈر ہی گئی تھی کہیں آپا سے نہ ہتھیا لی ہو رقم۔" پھرچائے کی پیالی دیکھ کر بولیں " رابعہ یہ کاڑھا ہوا تہ میں نہیں لوں گی۔ یہ گرا دو اور جب ایک گھونٹ رہ جائے تو اس میں دودھ ملا کرلے آنا۔"