SIZE
4 / 5

" السلام علیکم۔۔۔ بھابی خیریت' آپ یہاں کیسے؟"

برقعہ میں ملبوس ' زنیرہ کو دیکھ کر فصیح حیرت زدہ رہ گیا اور پھر زنیرہ نے اسے جواد کی گمشدگی اور اس حوالے سے آنے والے فون کا بھی بتا دیا جو کسی نیب کے آفیسر کا تھا۔

" اوہ' تو وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔" فصیح کے ہونٹوں پر ابھرنے والی طنزیہ مسکراہٹ زنیرہ کو کچھ عجیب سی محسوس ہوئی۔

" مجھے تو پہلے ہی خدشہ تھا کہ ایسا ہی ہو گا ' معاف کرنا بھابی! میں جواد کو ہمیشہ منع کرتا رہا کہ وہ رشوت لینے سے گریز کرے ' مگر کیا کہوں اس نے میری ایک نہ سنی اور آج وہ آخر کار نیب کے شکنجے میں پھنس ہی گیا۔"

" جواد اور رشوت! ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟" حیرت کے شدید جھٹکے نے اسے ہلا کر رکھ دیا۔

" کیوں؟ آپ نہیں جانتیں کہ جواد کا خرچا اس کی ماہانا تنخواہ سے کہیں زیادہ تھا۔" فصیح نے زنیرہ کو دیکھتے ہوۓ مصنوئی حیرت کا اظہار کیا اور زنیرہ جو سارے زمانے کی خبر رکھتی تھی ' اپنے شوہر کی آمدنی اور خرچ کا حساب بھی نہ رکھ سکی۔ اسی سوچ نے اسے جی بھر کر شرمندہ کیا۔

" مگر جواد نے تو کہا تھا کہ نیب کی یہ کاروائی محکمہ جاتی ہے۔" فصیح کے سوال کو قدرے نظر انداز کر کے وہ دھیمی آواز میں بڑبڑائی۔

" ظاہر ہے رشوت وہ محکمے کے ملازم کے طور پر ہی لیتا تھا تو کاروائی بھی محکمہ جاتی ہی ہو گی۔"

اب کوئی سوال کرنا بیکار تھا ۔ وہ وہیں سے واپس پلٹ آئی۔ تھکے تھکے قدموں سے مین روڈ پر پہنچی اور جانے کیسے رکشہ لے کر گھر واپس آئی۔ آفس سے گھر تک واپسی کا سفراس نے روتے ہوۓ طے کیا اور جیسے ہی رکشہ گھر کے گیٹ کے سامنے رکا' ایک دم ہی آنٹی گلنار اس کے سامنے آ گئیں۔

" ہیلو زنیرہ! ہاؤ آر یو۔۔۔" زنیرہ کے جواب کا انتظار کیے بنا انہوں نے خیریت بھی دریافت کر لی' کیوںکہ وہ ایسی ہی تھیں ' جب منلتیں زنیرہ کے سرد رویے کو نظر انداز کر دیتیں۔

" میں ٹھیک ہوں۔" جواب کے ساتھ بھل بھل آنسو اس کی آنکھوں سے بہہ نکلے اور پھر کب وہ اسے اپنے ساتھ گھر لے گئیں اسے علم ہی نہ ہو سکا' کیونکہ اس وقت اسے رونے کے لیے ایک کندھے کی ضرورت تھی اور وہ کندھا آنٹی نے اسے مہیا کر دیا۔ اپنا دل ہلکا کرنے کے لیے اس نے جواد کے حوالے سے ساری بات انہیں بتا دی کیوںکہ اس کے سوا اور کوئی چارہ نہ تھا۔ جانتی تھی کہ ایسی باتیں زیادہ دیر چھپی نہیں رہتیںاور جلد ہی سارے محلے کو جواد کی گرفتاری کا علم ہونے والا تھا۔

" میں کوشش کرتی ہوں شاید تمہارے کسی کام آ سکوں۔ ویسے میرا شوہر غیر ملکی سفارت خانے میں ہوتا ہے۔ ممکن ہے کہ اگر وہ پاکستان ہوتا تو تمہارے کسی کام آ جاتا ' مگر چونکہ پچھلے دو سالوں سے ہمارے درمیان مکمل علیحدگی ہو چکی ہے' اس لیے میں اس وقت اسے کال کر کے تمہاری کوئی بات ڈسکس نہیں کر سکتی۔" آنٹی نے مسکراتے ہوۓ زنیرہ کی جانب دیکھا۔

" اس عمر میں جوان بیٹیوں کے ہوتے ہوۓ آپ کے شوہر نے آپ کو چھوڑ دیا۔ حیرت ہے؟" اپنا دکھ بھول کر وہ گلنار کے دکھ میں شریک ہو گئی۔

" ہاں ڈئیر! اسے عشق ہو گیا تھا' وہ بھی اپنی بیٹی کی دوست سے' جس کے ساتھ شادی کر کے وہ غیر ملک جا بسا۔"