وہ ابھی ابھی درس لے کے گھر واپس لوٹی تھی۔ آج کا درس بچوں کی تربیت سے متعلق تھا۔ آہستہ آہستہ وہ جان چکی تھی کہ نیک اولاد جو والدین کے لیے صدقہ جاریہ ہے' اسے نیک بنانا بھی ایک اچھے والدین کی ذمہ داری ہے اور اسے خوشی تھی کہ وہ اور جواد اپنی اس ذمی داری بحسن و خوبی پورا کر رہے تھے۔ عبایا اتار کر اس نے ٹیبل پر موجود جگ کو ہاتھ لگایا ہی تھا کہ فون کی گھنٹی بج اٹھی ' جگ واپس رکھ کر اس نے فون کا ریسیور اٹھا کر کان سے لگا لیا۔
" السلام علیکم!"
" وعلیکم السلام! ہمیں مسز جواد سے بات کرنی ہے۔" دوسری طرف سے ابھرنے والی اجنبی آواز میں کچھ ایسا تھا جو وہ ایک پل کے لیے گھبرا گئی۔ جلدی سے سامنے لگی وال کلاک پر نظر ڈالی جو شام کے پانچ بجا رہی تھی اور ابھی جواد گھر نہ آیا تھا۔ ورنہ عام طور پر وہ تین بجے تک گھر آ جاتا تھا۔
" جی فرمائیں میں مسز جواد ہی بات کر رہی ہوں۔"
" محترمہ! میں اے ایس پی نیب خواجہ علی نواز ہوں۔ آپ کے شوہر جواد صاحب میرے ہمراہ ہیں۔ جنہیں کچھ ضروری تفتیش کے لیے ہم اپنے افس لے کے جا رہے ہیں' جیسے ہی ہمارا کام مکمل ہوا جواد صاحب بخیر و عافیت گھر پہنچ جائیں گے۔
بنا اس کا جواب سنے دوسری جانب سے کھٹاک کر کے فون بند کر دیا گیا۔ جواد اور نیب وہ ایک دم گھبرا گئی۔ اسے اپنے شوہر کی ایمان داری پر پورا بھروسہ تھا۔ ویسے بھی جواد کا تعلق جس حکومتی محکمے سے تھا' وہ آج کل نیب کے زیر عتاب تھا اور یہ بات اسے جواد نے خود بتائی تھی کہ آۓ دن نیب والوں کے چھاپے ان کے کام کو کس قدر متاثر کر رہے ہیں۔ یہی وجہ تھی جو پچھلے کچھ دنوں سے جواد پریشان تھا ' مگر پھر بھی اس کے دل کو یقین تھا کہ اس ساری کاروائی میں جواد بے گناہ ثابت ہو گا اور جلد ہی گھر واپس آ جاۓ گا۔ یہ سوچ کر اس نے جلدی جلدی کھانا بنایا۔ بچوں کو ہوم ورک کروا کر ' کھانا کھلا کر ' کچن سمیٹتے سمیٹتے اسے آٹھ بج گئے' مگر جواد گھر واپس نہ آیا جبکہ اس کا سیل فون بھی مسلسل بند جا رہا تھا۔ وہ اس شہر میں مسلسل تنہا تھی۔ جواد کے دونوں بھائی سعودیہ میں تھے اور زنیرہ کی فیملی اندرون پنجاب میں آباد تھی' چونکہ جواد کی ملازمت کراچی میں تھی اس لیے وہ دونوں کئی سالوں سے یہاں آباد تھے' جہاں انہیں کبھی اپنی تنہائی کا احساس نہ ہوا ' ماسواۓ آج کے ' جب رات کے بڑھتے ساۓ نے اسے احساس دلایا کہ عزیز اور رشتہ دار جیسے بھی ہوں ' کم از کم مصیبت کی گھڑی میں ساتھ ضرور ہوتے ہیں۔ اب وہ کہاں جاتی اور کس سے جا کر جواد کے بارے میں معلوم کرتی۔ اسی سوچ میں گھرے آدھی رات گزر گئی۔
دونوں بچے سو گئے جبکہ اس نے خود ساری رات جواد کے انتظار میں گزار دی مگر وہ نہ آیا ۔ صبح نو بجتے ہی وہ جواد کے افس میں جا پہنچی جہاں ہر کام روزمرہ کے مطابق ہو رہا تھا۔ آفس میں داخل ہوتے ہی اس کی ملاقات فصیح احمد سے ہو گئی جن سے وہ جواد کے حوالے سے پہلے بھی مل چکی تھی۔