SIZE
2 / 5

آنٹی گلنار دو سال قبل ہی ان کے محلے میں شفٹ ہوئی تھیں اور انہوں نے زنیرہ کے گھر کے بالکل سامنے والا گھر خریدا تھا۔ یہی وجہ تھی جو اکثر ٹیرس پر بیٹھی زنیرہ ان کے گھر کا نظارہ کرتی رہتی۔ کون آ رہا ہے اور کون جا رہا ہے۔ نادانستہ طور پر اس کی نظر اس سارے امر پر رہتی۔ شروع دن سے وہ جانتی تھی کہ گلنار کا شوہر پاکستان سے باہر رہتا ہے اور یہ بات اسے آنٹی نے ایک دن خود بھی بتا دی تھی جب وہ اتفاق سے پارک میں چہل قدمی کے دوران مل گئی تھیں' ساتھ یہ بھی بتایا کہ اولاد نرینہ سے وہ محروم ہیں۔ شروع شروع میں تو زنیرہ ان سے بات کر لیا کرتی تھی' مگر پھر اسے آنٹی کے گھر ہر دم مردوں کا انا جانا کچھ عجیب لگنے لگا۔ اوپر سے اس عمر میں ان کا جینز اور کرتا پہن کر بنا دوپٹے کے پھرنا گہرا میک اپ غرض بہت ساری باتیں تھیں جو زنیرہ کو ناگوار گزرنے لگیں۔

اور ایک دن تو حد ہی ہو گئی۔ سردیوں کی رات تھی جب وہ عشا کی نماز کے بعد حسب عادت ٹیرس پر بیٹھی تسبیح پڑھ رہی تھی سامنے نظر آتے گہرے اندھیرے میں ایک کار آنٹی کے گھر کے سامنے آ کر رکی۔ جس میں سے ان کی بڑی بیٹی شہنیل برآمد ہوئی بغیر آستینوں کی مختصر سی قمیض کے ساتھ بنا دوپٹہ وہ کسی نوجوان کے ساتھ تھی' جو اسے گیٹ پر اتار کر چلتا بنا۔ بس اس دن سے زنیرہ ہر پل آنٹی کی کھوج میں رہنے لگی۔ یہ جانے بنا کے ہمارے مذہب میں دوسروں کے گھر یوں تانکا جھانکی کرنا بھی منع ہے اور پھر آہستہ آہستہ آنٹی گلنار سے قطع تعلقی اختیار کر لی۔ اب اگر کبھی وہ اسے گلی میں کہیں مل جاتیں تو زنیرہ انہیں بالکل نظر انداز کر دیتی۔ شروع شروع میں ان کی دونوں بیٹیاں زنیرہ کو سلام کر لیا کرتی تھیں ' پھر وہ بھی اسے دیکھ کر ایسے ہو جاتیں جیسے دیکھا ہی نہ ہو' سونے پر سہاگہ زنیرہ نے دو ماہ قبل ایک دینی مدرسے میں داخلہ لے لیا تھا ' جہاں معلمہ باجی نے حلال اور حرام کے بارے میں اتنا اچھا درس دیا جو سمجھو زنیرہ کی رگوں میں اتر گیا۔ وہ جان گئی کہ حرام کا ایک لقمہ بھی اولاد کے حلق سے اتر جاۓ تو وہ ہر اچھائی برائی بھول جاتی ہے۔ بس پھر کیا تھا وہ ہر ممکن کوشش کرتی کے اس کی اولاد کا حلق حرام کے لقمے سے تر نہ ہو۔ یہ ہی وجہ تھی جو آنٹی کے گھر سے آئی بریانی نے اسے اس قدر سلگا دیا تھا کہ وہ بنا سوچے سمجھے ثریا کو بے نقظ سنا گئی جبکہ اس سارے معاملے میں اس بیچاری کا کوئی قصور نہ تھا۔