" اوہ۔۔۔۔" اس انکشاف نے زنیرہ کو حیران کر دیا۔ دنیا میں ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو رشتوں کا تقدس نبھانا نہیں جانتے۔ ایک ہی پل میں اسے اپنے سامنے بیٹھی ہوئی عورت دنیا کی سب سے مظلوم ترین عورت محسوس ہوئی' جس کے شوہر نے اس سے عمر میں کم از کم بیس بائیس سال چھوٹی لڑکی کو اس کی سوتن کے عہدہ پر فائز کر دیا۔
" وہ تو چاہتا تھا کہ ہم دونوں ساتھ رہ لیں ' مگر میری انا نے یہ گوارا نہ کیااور میں اسے چھوڑ کر علیحدہ ہو گئی۔"
" پھر آپ اپنے گھر کا خرچ کیسے پورا کرتی ہیں؟" تو یہ وجوہات تھیں جنہوں نے آنٹی کو غلط راہ پر لگا دیا۔ جس میں سراسر قصور ان کے شوہر کا تھا۔ زنیرہ کے دل میں موجود بد گمانی ' آنٹی کے اگلے ہی جملے نے دور کر دی۔
" میں پراپرٹی کا کام کرتی ہوں۔ اس کے ساتھ ساتھ کیٹرنگ بھی کرتی ہوں۔ ڈرائنگ روم کے ساتھ والا کمرہ میرا آفس ہے۔" آنٹی بدستور مسکرا رہی تھیں' ایسے جیسے وہ زنیرہ کے دل کے حال سے بخوبی واقف ہوں۔
" چونکہ میری بچیاں گھر میں تنہا ہوتی ہیں ' اس لیے سارا دن مجھے گھر سے باہر رہنا مجھے اچھا نہیں لگتا لہذا جو بھی کوئی کام ہوتا ہے' میں گھر سے ہی کرتی ہوں اور آج کل تو میں نے انٹرئیر ڈیکوریٹر کے طور پر بھی کام کرنا شروع کر دیا ہے۔ دعا کرو کے ٰخدا مجھے اس میں بھی کامیاب کرے۔ سچ تو یہ ہے کہ مردوں کے ساتھ رہ رہ کر میں بھی مرد بن گئی ہوں۔ عورتوں والی خصلت تو پتا نہیں کہاں جا چھپی ہے۔گھر میں بھی چھ بھائی ہیں' بہن کوئی نہیں مگر شکر ہے کہ سارے بھائی میری خبر گیری کے لیے آتے رہتے ہیں۔ شہنیل کا نکاح بھی میرے بھائی کے بیٹے کے ساتھ ہو چکا ہے جو اس کے ساتھ ہی یونیورسٹی میں پڑھ رہا ہے' اس لیے اس کے پک اینڈ ڈراپ کی ذمہ داری بھی وہی پوری کرتا ہے۔"
ایک کے بعد ایک بات کھلتی چلی گئی۔ زنیرہ کے دماغ میں لگی ساری گرہیں کھل کر واضح ہو گئیں۔ جیسا وہ سمجھ رہی تھی ویسا نہ تھا اور جو اسے پتا نہ تھا وہ کھل کر سامنے آ گیا ۔ اس کے ساتھ یہ احساس یہ بھی اس کی رگوں میں اتر گیا کہ دوسروں کے گھروں کی ٹوہ میں وہ خود اپنے گھر سے اس قدر بے خبر ہوئی کہ کب حرام اس کی اولاد کے حلق سے نیچے اترا ' اسے علم ہی نہ ہو سکا اور جب وہ دوپہر ڈھلے گھر واپس آئی تو ایک بدلی ہوئی زنیرہ تھی جو آنٹی کے گھر سے کھانا بھی کھا آئی تھی کیوں کہ وہ جان چکی تھی کہ دلوں کے بھید صرف وہی جانتا ہے جو سب کا مالک و مختار ہے۔