SIZE
4 / 5

" میری امی کیا مجھے ویسے نہیں دے سکتیں پھپھو! اس میں حساب کتاب کیسا؟" عریشہ صدمے میں بولی تھی کہ پھپھو نے کس قدر عجیب بات کی ہے۔ ماں سے لینے پر اعتراض کیوں بھلا!

" عریشہ! میں تمہیں اگر ایک بات سمجھاؤں۔ کوئی نصیحت کروں تو اسے غلط نہ سمجھنا بیٹا! میری کوئی بیٹی نہیں ہے اور بہوؤں کو ہی بیٹی سمجھا ہے میں نے ۔ پھر تم تو میرے بھائی کی اولاد ہو۔" ان کا لہجہ نرم سے نرم ہوتا جا رہا تھا۔ عریشہ کو ایک دم فکر لاحق ہوئی تھی کہ آخر بات کیا ہے۔ عجیب قسم کے اعتراض اور عجیب تر بات۔

" کیا بات ہے پھپھو! مجھ سے کوئی غلطی ہو گئی ہے کیا۔ بتائیں پلیز۔" وہ فکر مندی سے بولی تھی۔ " اپنے شوہر کی کمائی سے گھر چلاؤ بیٹا! رب اسی میں برکت دے گا۔ ماں کے گھر پر تمہارا لاکھ حق سہی۔ لیکن یوں روز روز ماں سے لینا' بھابیوں کے دل میں تمہارے لیے نفرت کے بیج بو دے گا۔ اور ان ہی باتوں کی وجہ سے ماں کے بعد لڑکی کو میکے میں خوش دلی سے بلانے والا کوئی نہیں ہوتا۔"

" یہ کیا بات ہوئی پھپھو!" اس نے قدرے نہ سمجھی سے انہیں دیکھا تھا' جیسے بات اس کی سمجھ سے باہر تھی لیکن پھوپھو کی بات ابھی جاری تھی۔

" جو مائیں ہر وقت بیاہی ہوئی بیٹیوں کے لیے مال اور چیزیں جمع کرنے میں لگی رہتی ہیں ' ان کے دل بہوؤں کے لیے تنگ ہو جاتے ہیں۔ پھر ایک دوسرے کے لئے دل میں جگہ نہیں رہتی۔ ایسی مائیں اچھی نانیاں تو بن جاتی ہیں مگر دادیاں بہت ظالم ہوتی ہیں۔ بچوں میں فرق رکھتی ہیں۔ پہلے بیٹی کے لیے بعد میں نواسے نواسیوں کے لیے ہی فکر مند رہتی ہیں۔ کیا فائدہ ایسی فکر کا جو دل میں نفرت پیدا کر دے۔ اگر وہ دونوں طرف محبت بانٹیں تو آئندہ بھی ان کی اولادیں خوش اور مطمئن تو رہیں ناں۔یہی اصل بات ہے۔ تم لو اپنی ماں سے۔ فرمائش بھی کرو۔۔۔۔ مگر عید بقر عید پہ' اپنی اور بچوں کی جیسے ہر گھرکی روایت ہے ویسے۔۔۔۔ لیکن ہر وقت کے اس لین دین سے بچو۔ دوسروں کے حقوق مارکر اپنا گھر مت بھرو۔ بہتر یہی ہے دوسروں کے حق ان کو لینے دو۔ تم اپنے حصے پر شکر کرو۔