آج بھی بچوں کے اسکول جانے کے بعد گھر کے کچھ کام نپٹا کر گئی تھی۔ وہاں سے اپنی امی کے ساتھ مارکیٹ اور اب گھر واپس بچوں کی شاپنگ کے ساتھ ائی تھی۔ شاہدہ بیگم کو اس بات پر سخت اعتراض تھا۔ وہ ان عورتوں میں سے نہ تھیں جو اس بات پر خوش رہتیں کہ بہو میں میکے سے لا لا کر گھر بھرتی رہے اور ان کے بیٹوں کی کمائی میں سے خرچ نہ ہو۔ انہوں نے بہت محنت سے اپنے بچوں کو پالا تھا۔ اپنی اولاد کے لیے ایسی آسائشوں کے حق میں نہ تھیں جو بعد میں آلام کا باعث بنیں۔
سو اب جب عریشہ آچکی تھی تو انہوں نے اسے سمجھانے کا فیصلہ کر لیا تھا۔
اریشہ شاپنگ بیگ کمرے میں رکھنے جا چکی تھی۔ واپس آ کر وہ ابھی بیٹھی ہی تھی کہ انہوں نے کہہ دیا۔
" وہ کباب رکھے ہوئے ہیں بچوں کے لیے برگر بنا دو۔ کیچپ اور مایونیز ڈال کے۔ خوش ہو جائیں گے۔
" ہائے پھوپھو! دو دو چیزیں بنیں گی اس طرح تو بجٹ آوٹ ہو جائیگا۔ کباب تو مہمانوں کے لیے بنا کر رکھے ہیں۔"
" کچھ نہیں ہوتا۔ برکت کی دعا کیا کرو۔ اچھا بھلا تو ہو رہا ہے گزارا۔ سلیقے سے چلو گی تو کچھ آوٹ نہیں ہو گا۔"
" کہاں پھپھو! ابھی یہ شاپنگ امی نے کروا دی ہے۔ میں نے تو شکر کیا۔ بے فکری ہو گئی' ورنہ سب کچھ خود لینا پڑتا تو آخر میں بہت مشکل ہو جاتی ہے۔ بجٹ دیکھ کر چلنا پڑتا ہے۔"
پھپھو کو یہ بات بہت ناگوار گزری تھی۔
" اتنا کم تو نہین کماتا میرا بیٹا کہ تمہیں یوں ماں سے لے کے گزارا کرنا پڑے۔ میں جب سے ائی ہوں تمہیں سمجھائے چلی جا رہی ہوں کہ سلیقے سے' سمجھ داری سے خرچ کرو۔ لیکن کچھ فائدہ نہیں کہنے کا۔
" انہوں نے ناراضی سے کہا۔
" آپ مہنگائی تو دیکھیں پھپھو! میں نے کونسی فضول خرچی کر دی ہے جو آپ خفا ہو رہی ہیں۔ یہ سب آج امی نے لے کر دیا ہے۔ میں نے خود نہیں لیا میں سچ کہہ رہی ہوں۔" عریشہ نے ان کی غلط فہمی کو دور کرنے کی کوشش کی تھی۔ ابھی تک اس کی "امی نے لے کر دیا ہے" کی تکرار جاری تھی۔
" کیوں لیا ہے ماں سے؟ کوئی خاص وجہ ہے اس کی؟ کوئی عید سالگرا خوشی کا موقع۔ کس وجہ سے ماں نے یہ تحائف دیے ہیں' بتاؤ۔" ان کے الفاظ سخت مگر لہجہ نرم تھا۔