عریشہ پچھلے کچھ سالوں سے الگ رہ کر آزادی کی عادی ہو گئی تھی۔ اب ساس ایک بار پھر اس کے پاس رہنے کے لیے آ گئی تھیں۔ ان کی یہ روک ٹوک ' نصیحت اور مشورے اسے کسی وقت بے حد کھٹکتے تھے۔ اور کسی موقع پر ان کی کوئی ہدایت بے حد کام آئی تھی۔ ایسے موقع پر اسے بے حد خوشی بھی ہوتی تھی۔ ساس بہو کی اگر کسی بات پر نہیں بنتی تھی تو ایسے بھی بہت سارے معاملات تھے جن میں دونوں کا اتفاق ہو جاتا تھا۔ وہ ایک دوسرے کی بات سنا بھی کرتی تھیں اور وقت آنے پر ایک دوسرے کو سمجھا بھی لیا کرتی تھیں۔ بد گمانی' طنز اور منافقت سے آپس کے رشتے کو تلخ نہیں بناتی تھیں ۔ بلکہ الجھی ہوئی گرہ کو تھوڑی محنت کر کے سلجھا لیتی تھیں۔ اس لیے دل میں ایک دوسرے کے لیے محبت قائم تھی۔
عریشہ کی ساس شاہدہ بیگم پچھلے چند سال سے بڑے بیٹے کے پاس کراچی میں مقیم تھیں۔ اب کچھ عرصے پہلے وہ اپنی فیملی کے ساتھ یورپ شفٹ کر گئے تو وہ اپنے چھوٹے بیٹے کے پاس واپس لاہور چلی آئیں۔ وہی اپنا گھر وہی معاملات تھے ۔ بچے اب بڑے ہو چکے تھے۔ اسکول جاتے تھے۔
شاہدہ بیگم کی لاڈلی بھتیجی اور پیاری بہو کے ساتھ خوب بنتی تھی۔ جہاں وہ اس کے اخلاق ' مروت اور سگھڑاپے پر خوش تھیں۔ وہیں انہیں عریشہ کے کچھ کاموں پر اعتراض اور تشویش بھی ہوتی تھی۔ انہیں آئے ہوۓ چار ماہ ہو گئے تھے' اس دوران انہوں نے محسوس کیا کہ عریشہ بے شک سگھڑ ہے ' گھر کے کاموں میں طاق بھی ہے' لیکن بعض جگہوں پر وہ بے جا فضول خرچی کر کے اپنے لیے خود ہی تنگی کا سامان پیدا کر لیتی تھی۔ قریب ہی میکہ تھا۔ تھا ہر دوسرے دن وہاں کے چکر اور پھر وہاں سے شاپنگ کے لیے نکل جانا۔ اگر آپ نے پیسے برباد نہیں کرتی تھی تو ماں کے پلے سے خرچ کر کے سامان اٹھائے گھر چلی آتی تھی۔