تم میرے بیٹے کی کمائی پر گزارا کرو۔ جتنا رزق تمہارے نصیب میں ہے تمہارے گھر تک پہنچ جائے گا لیکن اگر یوں زور زبردستی سے ماں کے گھر سے پیسہ لا کر اپنے گھر کی غریبی ختم کرنے کا جتن کرو گی تو یہ اور بڑھے گی کیونکہ یہ غریبی نہیں تمہارے دل کی حرص ہے۔ جو ختم نہیں ہوتی۔"
وہ اپنی بات پوری کرنے کے بعد اسے دیکھ رہی تھیں۔ عریشہ بے حد گم صم ہو گئی تھی۔
" پھپھو! اس حوالے سے تو میں نے کبھی نہیں سوچا۔ میرا تو خیال تھا کہ امی کے گھر پر میرا حق ہے۔ ہے"
" پہلے نہیں سوچا تو اب سوچو بیٹا۔ مانتی ہوں تمہارا حق ہے لیکن صرف تمہارا حق نہیں ہے۔ اور بھی حق دار ہیں۔ انہیں ان کا حق لینے دو۔ بیٹیوں کے حوالے سے مائیں بہت جذباتی ہوتی ہیں۔ بہوؤں کی حق تلفی کرنے میں وار محسوس نہیں کرتیں۔ لیکن اگر بیٹیاں تم جیسی سمجھ دار ہوں تو ماؤں کو ان غلطیوں سے بچا لیں گی۔ مجھے یقین ہے کہ تم میری بات پر گور کرو گی۔ میں اب وضو کر لوں۔تم روٹیاں بنا لوں۔ بچے بس پہنچنے والے ہوں گے۔"
وہ اٹھ کر وضو کرنے چل دیں تھیں اور عریشہ کے اندر سوچ کا ایک در وا ہو رہا تھا۔