کپڑے سے ڈھک کر جا رہی تھی۔ ظاہر ہے ہم آۓ ہوئے مہان زیادہ تھے تو کھانا بھی زیادہ تھا۔ ہمارا واپس جانے کا ارادہ تھا شام ہو رہی تھی اور واپسی جاتے جاتے اندھیرا زیادہ ہو جاتا۔
ابا گھر پر اکیلے تھے' تایا جی سے دو کل ملنے آتے۔
" سارا سوٹ تباہ کر دیا تو نے۔" ماموں دھاڑ اٹھے تھے۔ امی پانی سے ہاتھ دھو کر پیچھے ہٹیں تو ذرا سا پانی ان پر بھی گر گیا تھا اور وہ غضب ناک ہو گئے تھے۔ بات اتنی تھی نہیں جتنا اسے بڑھا دیا گیا تھا۔
امی دکھی ہو گئی تھیں وہ لمبی کچی سڑک پر ہمیں لیے باہر نکل آئی تھیں۔ اچھا تو مجھے بھی نہیں لگا تھا مگر کیا کر سکتی تھی۔ سورج دور کھیتوں میں تانبے کے بڑے گولے کی طرح غروب ہو رہا تھا' امی اور ماموں کے تعلقات بھی ایسے ہی غائب ہو جاتے تو کتنا اچھا تھا۔
" ہے تو میرا بھائی مگر۔" امی رو پڑی تھیں۔
" ایسے ہوتے ہیں بھائی ! میں بڑبڑائی ضرور مگر بولی نہیں۔
" رخسانہ خالہ شاید کل ہماری طرف بھی آئیں۔" خاور بستر پر لیٹے لیٹے پوچھ رہا تھا یا بتا رہا تھا۔
" تم نے سونا ہے یا نہیں۔" امی کے گھرکی پر دبک گیا تھا اور ندیا' وہ تو یوں بھی جلدی سو جاتی تھی۔
"مہمان تو ماموں کے تھے اور ہم نے یونہی اناج کے ڈھیر جمع کر لیے ہیں۔ اب پتا نہیں ہمارے گھرماموں انہیں آنے دیں گے یا نہیں۔"
میں نے انہیں جو جو دلیریاں دکھانی تھیں سارے خواب مجھ سے پہلے لم لیٹ ہونا شروع ہوگئے تھے۔
پنجیری کې بڑی لبالب بھری پلیٹ چاچا اللہ داد کے ہاں سے آئی تھی۔ گرم پنجیری میں سے دیسی گھی کی مہک اٹھ رہی تھی۔ خاور اس میں انگلی ڈبو ڈبو کر کھا رہا تھا اورندیا بے چاری جب بھی انگلی قریب لاتی' جلنے کا ڈر اس کے گرد گھیرا ڈال لیتا اب وہ چمچ کی تلاش میں بھاگی پھر رہی تھی جبکہ خاور جلدی جلدی ہڑپ کرنے کے چکر میں تھا۔
" امی! یہ حلوہ کس خوشی میں تھا؟“ میں نے امی سے پوچھا تھا۔
" جہاں داد خیر سے وڈا افسر ہو گیا ہے نہروں کے محکمے میں' اسی خوشی میں سب کا منہ میٹھا کروایا ہے بھرا اللہ داد نے ۔" امی نے کہا۔
" اچھا اچھا جہاں داد!‘‘ میری نظر میں جہاں داد کا سراپا گھوم گیا تھا۔ وہ شہر میں پڑھتا تھا اور اکثر ہی گاؤں آتے جاتے اسے دیکھتا تھا۔ چھوٹے سے لمبے بیگ کو کندھے سے لٹکاۓ وہ کھیتوں میں آتے ہوۓ وہ شہری ہی لگتا۔ گاؤں کا باسی نہیں۔ وہ سب کو سلام کرتا تھا گھروں میں اتا جاتا بھی تھا اور پھر وہ موٹی موٹی کتابیں پڑھنے والا بابو ایک عجیب کام کرتا تھا۔
وہ درانتی پکڑ کر پٹھے(چارہ) کاٹتا تھا اور پھر مشین میں باریک کر کے بھینسوں کے آگے ڈالتا اسے اس میں بھی مہارت حاصل تھی۔
" خالہ آ گئیں۔"
میں اور ندیا چاچا اللہ داد کے گھر بیٹھے تھے۔ فرزانہ سے میری اچھی دوستی تھی' وہ دوپٹے پر بیل کاڑھنے میں مصروف تھی۔ قمیض کے بیل بوٹوں پر کڑھائی مکمل تھی، صرف دو پٹہ باقی بچا تھا۔
" ماہا میں تمہیں بھی ایسا ہی دوپٹہ کاڑھ کر دوں گی۔" وہ سبز سبز دھاگے میں الجھی الجھی بولی تھی کہ خاور بھاگتا بلکہ چوکڑیاں بھرتا چلا آیا تھا۔
" احسن بھائی، حسن اور خالہ اور اور آپیاں بھی آئی ہیں۔"
اب جب میں میں مایوس ہو گئی تھی تو وہ آ گئے تھے۔ ابا تایا جی سے ملنے کے بعد لکڑیاں کاٹ رہے تھے ۔ اور امی پلاؤ کے لیے پیاز کاٹ رہی تھیں۔
" السلام علیکم احسن بھائی !" میں نے احسن بھائی کو سلام کیا تھا پھر حسن بھائی کو۔ مبشرہ آپی اور ایصال آپی نے مجھے گلے لگایا تھا۔
" ماہا! جا رحمت علی کے گھر میں مرغیوں کا کہہ آئی ہوں۔ تیری خالہ سے پکڑی نہیں جا رہیں' تو اور خاور مل کے پکڑ لاؤ اور جلدی آنا۔" میں اور خاور اٹھ کے چل دیے تھے پیچھے پیچھے ندیا بھی۔
”خالہ ! میں بھی ان کے ساتھ جاؤں۔ اور حسن بھی ہمارے ساتھ چل پڑے تھے۔