SIZE
3 / 6

" اچھا تو یہ ہے وہ جس کے دوپٹے پر گوٹا لگ رہا تھا۔" پرسوں میں نے ندیا کو اسی پلنگ پہ سوئی دھاگا اور گوٹے کا ٹکڑا لیے بیٹھےدیکھا تھا۔ وہ سوئی دھاگے سے گڑیوں کے کپڑے سیتی تھی۔

" اٹھا نہ لیں ایک یہ والی۔‘‘ ندیا سہیلیوں کے ساتھ باہرکھیلنے گئی تھی یا پھر چھت پر ہو گی۔ اسی لیے خاورکی اتنی جرات ہوئی تھی کہ اس نے ندیا کی گڑیوں میں سے ایک کو منتخب کر لیا تھا اب کے اس کی آنکھوں میں شرارت تھی اور بغل میں بوتل۔

" چلو رکھو واپس۔"

میں اپنی جون میں واپس آ چکی تھی اور وہ پلنگ کے نیچے شاپر رکھ رہا تھا۔

تایا کے یہاں ہی رخسانہ خالہ کی پہلے آمد ہوئی تھی۔ خالہ ان ہی کے گھر زیادہ رہتی تھیں پھر باقی برادری کے یہاں ملنا ملانا ہوتا تھا۔

" امی' خالہ آ گئی ہیں۔ چاچا نے بتایا ہے۔ ابھی گنے لے کے جا رہے تھے گاؤں چک بارہ۔"

بخشو چاچا نے ریڑھی پر بیٹھے بیٹھے ہی مجھے اطلاع دی تھی۔ جب میں ککڑیاں لے کے کھیت سے آ رہی تھی۔

" دھیے ' آ گئی ہے تیری ماسی' سویرے سویرے اسٹیشن تک سالم تانگا کروایا ہے تیرے تاۓ اجمل نے۔"

چاچا خوش ہو کے بتا رہا تھا اور میں بھی بڑی خوشی خوشی بھاگی آئی تھی۔ امی کے پاس۔

" چل شام کو چلتے ہیں تیرے ابا کے ساتھ ۔"

" ماسی آ گئی۔ ماسی آ گئی۔‘‘ خاور سارے صحن میں گھومتا پھر رہا تھا۔ خوشی انگ انگ سے پھوٹ رہی تھی۔

" تمہاری شادی نہیں ہو رہی جس میں شرکت کرنے آ رہی ہیں۔"

" پہلے تو تمہاری ہو گی آپی! سچ آپی' کب جاؤ گی یہاں سے۔" وہ بھاگ کر صحن عبور کر گیا تھا۔

" باجی' ایصال باجی میری باجی ہیں بس باقیوں میں سے کوئی تم لے لو۔"

خاور' ایصال باجی کی گود میں تھا اور ندیا' حسن بھائی کے ساتھ لٹکی کھڑی تھی اور میں مبشره باجی سے چمٹی کھڑی تھی۔ امی خالہ سے مل رہی تھیں۔

" رخسانہ ' امی کے بعد تو میں۔۔۔۔۔۔۔ " امی نانی کے انتقال کے دو سال بعد بھی سنبھل نہیں پائی تھیں' اب بھی پھوٹ پھوٹ کر رو پڑیں۔

" اب بس بھی کردے کیا ہر وقت رونا دھونا مچاۓ رکھتی ہے۔" یہ اجمل ماموں تھے جنہیں نجانے کس بات پر غصہ آ گیا تھا اچانک ہې۔

" اسے تو اللہ جانے کیا ہے' یاد ہی نہیں کرتا اماں کو۔"

امی رخسانہ خالہ سے الگ ہو کے آنسو پونچھ رہی تھیں۔ یہ دونوں بہنوں کا میکہ تھا۔ نانی تھیں تو امی کا گھر بھی تھا کیونکہ ماموں تو ایسے ہی تھے اور اب نانی کے بعد وہ صرف رخسانہ خالہ کا میکہ رہ گیا تھا شاید امی کا نہیں۔ مگرامی کو یہ کو یہ سمجھاتا کون!

ممانی اپنے ہونے والے داماد کے لیے بوٹیوں اور تری والا سالن نکال کر رکھ رہی تھیں۔ افضل' مبشرہ باجی کو دیکھ رہا تھا اور نہال ہوۓ جا رہا تھا جبکہ احسن بھائی کوثر باجی کے لیے بے چین تھے وہ اکثر ہی یہاں پائے جاتے تھے انہیں گاؤں کی آب و ہوا بھا گئی تھی یا شاید کوثر باجی کی نظر نے انہیں جکڑا تھا۔ دوسری وجہ زیادہ بھاری بھرکم تھی ' ان کی محبت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں تھی اور نہ ہی والہانہ پن مخفی تھا۔

صدیقہ ' حسن بھائی کے ساتھ لگی تھی' حسن ہماری ہی عمر کا تھا لیکن مجھ سے اور صدیقہ سے ذرا بڑا تھا بحال کے جو ان دونوں سال اول میں تھا۔

" حسن بھائی ! میں آپ کو امرود توڑ کے کھلاؤں گی۔" صدیقہ نے اسے بازو سے تھام رکھا تھا۔

”ہاں ضرور اور سیر کو بھی چلیں گے لیکن پہلے میں نہا لوں ۔ بہت تھک گیا ہوں۔ مائی صابن دے دیں مجھے۔"

اور جلدی سے صابن لانے روڑیں۔ مرغیاں ذبح ہو گئی تھیں اور روٹیاں نائن لگا رہی تھی۔

" لے بی بی صابراں' روٹیاں ہو گئیں۔ اب تنور ڈھانک رہی ہوں۔ کسی دوسرے نے روٹیاں لگانی ہوں تو سینک (تپش) ابھی بہت ہے۔" وہ تنور کو