امی اداس ہی تھیں ' امی کا بڑا دل کرتا تھا کہ ان سے کوئی دکھ سکھ کرتیں۔ نانی کے مرنے کے بعد امی کا دل بڑا ٹوٹ گیا تھا۔ سب سے چھوٹی تھیں اور سب سے زیادہ تنہائی بھی ان کے حصے میں آئی تھی۔ نانی سے ان کا بڑا گہرا رشتہ تھا۔
اجمل ماموں کی امی سے کم ہی بنتی تھی۔ وجہ عمر کا فرق اور زمینوں کا فرق تھا ' ماموں کی زمینیں تھیں اور افضل بھائی کی کھاد کھلی کی دکان الگ' ماموں کے اندر غرور بہت تھا۔ ان کی لمبی سیاه گردن میں گویا سریا فٹ تھا خود کوکوئی اونچی شے سمجھتے تھے۔ مجھے تو ان سے بڑی چڑ ہو گئی تھی۔ بھئی جو کترائے اسے منہ نہ لگاؤ مگر امی کو کون سمجھاۓ۔
تی۔
کھلے' چاندنی نہاتے صحن میں ہلکی ہلکی ہوا چل رہی تھی ' خاور اور ند یا پہلے لڑتے بھاگتے پھر رہے تھے۔ اب سو چکے تھے' ہوا تھی ہی اتنی سجیلی اور کھلی اور اور اوپر سے بدلتی رُت۔
امی اورابا کے دکھ سکھ جاری تھے میں نے ہلکا والا کھیسں ندیا کے اوپر ڈالا اور چھت پر چلی آئی ۔ دور تک اندھیرا پھیلا تھا اور اونچی چھت سے تاحد نظر فصلیں ہی فصلیں تھیں ۔ جوار' باجرہ اور کپاس کے کھیت' ہاں کپاس کی تو کل چنائی بھی تھی جو اذان کے فورا بعد شروع ہوئی اور پھر صفائی اور ونڈائی۔ (تقسیم) ٹھنڈی ہوا کے جھونکے میں پانی کی خوشبو بھی تھی' شاید چاچا اللہ داد کے کھیتوں کو پانی لگ رہا تھا۔ آض ان ہی کی باری تھی۔
پچھواڑے والا ٹیوب ویل چل رہا تھا اور سارا دن بھی چل رہا تھا۔
" ماہی نی ماہی!" امی کی آواز تیز تھی ' میں سیڑھیاں اترتی نیچے آئی۔ "جی امی!
" اب سو جا رات بہت ہو گئی ہے۔" امی اور ابو بھی لیٹ چکے تھے۔ میں بھی لیٹ گئی تھی۔ تین دن بعد اتنے سارے مہمان حسن ' احسن اور مبشرہ 'ايصال آپی اور رخسانہ خالہ' میں خوش تھی۔ خوب ہلا گلا رہے گا انہیں پانی میں چھلانگیں مار کے دکھائیں گے اور ہاں نہر پر تو ضروری ہی لے جائیں گے ۔ خاور' ندیا اور میں مل کے انہیں چھوٹی مچھلیاں بھی پکڑ کے دکھائیں گے۔ چھوٹی سی نہر کے مٹیالے پانی میں مچھلیاں بھی ہوتی تھیں جنہیں بچے پکڑتے تھے اور کبھی کبھار کوئی ذرا بڑی مچھلی بھی۔
میرے دل میں بہت سارے منصوبے تھے اور پھر نیند نے میرے گرد بھی گھیرا تنگ کر دیا تھا۔
صبح ہی صبح کا وقت تھا امی اپلوں کی راکھ اکٹھی کر رہی تھیں اور خاور اپنے کنچے بوتل میں گن کے ڈال رہا تھا۔ نیلے پیلے' ہرے سنہری' وہ کانچ کی بڑی ساری بوتل بہت سنبھال کے رکھا کرتا تھا اور ندیا اپنی گڑیوں اور ان کے کپڑوں کو چھپا چھپا کے رکھتی تھی۔
" کیا ہو رہا ہے؟" بڑے سارے کچے کمرے میں پلنگوں کی قطار تھی اور صندوق اوپر اینٹوں پر دھرے تھے۔
" دو غائب ہیں تم نے چراۓ ہوں گے۔" خاور کی گول موٹی آنکھوں میں شکوہ اور اداسی دونوں تھے' ندیا کو تو مار بھی لیتا تھا'اس کے پیچھے حسب استطاعت دوڑ کر جایا کرتا تھا اور میں چونکہ خط لکھتی اور پڑھتی تھی اور ویسے بھی بڑی تھی تو خاور بے چارہ کیا کرتا۔
کوئی اور وقت ہوتا تو میں بوتل اس سے لے لیتی مگراب مجھے ذرا ترس آ گیا تھا۔
" ادھر آو۔" میں نے اسے اٹھا لیا تھا۔ " آؤ مل کے کنچے ڈھونڈتے ہیں' یہیں کہیں گر گئے ہوں گے، اور پھر دیکھو پلنگ کے نیچے ، صندوق کے ساتھ والے پلنگ کے ساتھ ہاں یہ ایک مل گیا اب دوسرا بھی ڈھونڈ لیتے ہیں۔" نیچے ندیا کی گڑیوں والا شاپر بھی مل گیا تھا۔
" یہ ہے بنو!" خاور نے مجھے سنہری گوٹے والی قمیض پہنے گڑیا دکھائی۔