SIZE
1 / 6

" رخسانہ آ رہی ہے اگلے مہینے کی بارہ کو۔“ ماموں جان نے خط افضل سے لے کر بیوی کو اطلاع دی اور خود ککڑ کا انتظام کرنے چل دیے۔

خالہ کا خط کبھی ہمارے پر آتا تو کبھی اجمل ماموں کی طرف' بہرحال رہتی وہ ماموں کے ہاں ہی تھیں۔ آنا جانا کہیں بھی ہو' بیگ ان کا اور دوسرے معنوں میں بسیرا ان کا ماموں کا گھر میں ہی ہوتا۔

افضل بھائی ' کوثر باجی کی منگنیاں رخسانہ خالہ کے گھر ہوئی تھیں اور صديقه آٹھویں میں تھی اور سب سے چھوٹی تھی۔ تعلقات بڑے گرم جوش تھے اور اس میں دوسری برادری کے ساتھ ہم بھی شامل تھے۔امی اور رخسانہ خالہ کا وٹہ سٹہ ہوا تھا اور خالو میرے تایا بھی تھے۔

" کیا لکھا ہے؟" ابوکو اب ٹھیک طرح سے لفظ سجھائی نہیں دیتے تھے سو خط پڑھنے اور جواب لکھنے کی ذمہ داری میری ہوئی۔ آٹھویں کلاس میں ہی میرا خط بہت اچھا تھا سب سراہتے تھے تو خط لکھنے کا سہرا میرے سر بندھا تو گویا چراغوں میں روشنی نہ رہی۔ ندیا اور خاور جو چھٹی اور ساتویں میں تھے ان میں سے مجھے اہمیت مل گئی تھی۔

" چھ تاریخ کو گرمی کی چھٹیاں ہو رہی ہیں۔ ۔ بچوں کے کپڑے بنا لیے ہیں اور اگلے دن کی تیاری ہے ۔ وغیرہ وغیرہ سب گھر والوں کو سلام۔"

میں نے خط پڑھ کر گویا کوئی دریا پار کر لیا تھا۔ ابو نے عینک ایک طرف رکھ دی تھی۔

" اچھا پیاز وغیرہ لے لیں میراں؟"

امی من بھر پیاز خریدا کرتیں جو ساری گرمی سے ذرا کم عرصے میں چارپائی کے نیچے مٹی کے صاف فرش پر پڑی رہتی' پلاؤ بنانے کے لیے چاول اکٹھے صاف کر کے مٹی کے گھڑوں میں اور آٹا پسوانا' سب کام ایک ساتھ ہو جاتے تھے۔ گرمی کی دوپہر میں جب کسی کو بے وقت بھوک لگتی۔

" امی ! روٹی ہے کھارے کے نیچے' پر سالن نہیں۔" کوئی آواز لگاتا۔

" ہاں تو ایک پیاز توڑ لے۔"

اور پھر چارپائی کے پائے سے پیاز توڑ کر روٹی کے اوپر اور تھوڑا سا نمک چھڑک کر بھوک مٹا لی جاتی۔

گرمی کی چھٹیوں میں میرا دل بھی بڑا خوش ہوتا تھا۔ چھٹیوں کا کام کون کرے بھلا ؟ ایک ہی بار بار کریں گے اور پاریس سارا سردیوں میں ختم کر مل گئے ۔ ایک ہی بار مار کھا لیں گے اور پھر سلیبس سارا سردیوں میں ختم کر لیں گے۔ اتنی گرمی میں پڑھائی' میرا تو دل ہی نہیں مانتا تھا۔

سارا دن ٹیوب ویل پر نہانے کے سوا مجھے کہیں چین نہ پڑتا ۔ خاور البته ماسٹر جی سے ڈرتا تھا۔ وہ پھرپھرا کر آ کے کتابوں پہ جھک ہی جاتا تھا اور کبھی کبھار ندیا بھی مگر میں نہانا نہیں چھوڑتا تھا۔

صبح ہی صبح امی سارا کام کر کے دھریک تلے چارپائیاں ڈال دیتیں ۔ ابا کی زمینوں پر اور میں امی کے ساتھ تھوڑا بہت ہاتھ بٹا کے گھر کے اندر ہی وسیع صحن میں لگے ٹیوب ویل' پر جو مزا ایسے کھلے پانی میں نہانے میں ہے اور کہاں' یہ تو مجھے ہی پتا ہے بس۔

" پیاز لے آیا ہوں اور چاول صاف ہوگئے کہ نہیں؟"

ابو نے بوری صحن میں ہی رکھ دی تھی' پچھلے سال ماسی انو سے پیاز خریدی تھی' ان کی پیاز تو اس دفعہ سيدها منڈی پہنچ گئی تھی اور اب دوسرے گاؤں چک بارہ سے پیاز لائے تھے۔

" سارا ہی ہو گیا ہے ماہا کے ابا؟"

" پر تیرا بھرا اللہ جانے اتنے دن یہاں رہے بھی کہ ناں۔ جتنا اجمل اسے کھلا سکتا ہے ناں' اتنا تو شاید ہم سے نہ ہو سکے اور وہ زیادہ ٹکیں گے بھی ادھر

ہی۔"