" تمہارا گاؤں بہت خوبصورت ہے۔" بہتی ندی کے شفاف پانی میں حسن نے جھانک کر کہا تھا۔
" ہمیں تو گاؤں میں ہی ہونا چاہیے تھا یہ حسین مناظر شہر میں کہاں؟"
" تو ان مناظر کو نگاہوں میں بھر لے جائیے تازہ دم رہیے۔"
میں مسکرا اٹھی اور خاور نے چلو بھر کر ٹھنڈا پانی ان پر پھینک دیا۔
" واہ بھئی تم تو بڑے اچھے لفظ استعمال کرتی ہو۔" وہ ہنس کر بولے۔
" یہ صدیقہ کون سی کلاس میں ہے بھلا؟" وہ ذہن پر زور دے کر بولے۔
" آٹھویں۔" خاور پھر بول پڑا تھا۔ " خیر تم تو اس کے برعکس سنجیدہ اور ذمہ دار ہو گئی ہو ، وہ تو جیسی پچھلے برس چھٹیوں میں تھی اب بھی ویسی ہی ہے۔" مرغیاں پکڑ کے ہانپتا ہوا خاور بھی مرغا ہی لگ رہا تھا۔
" اب کرتا ہوں تیرا بندوبست۔" وہ بڑی چونچ والے غصیلے مرغے کو گھور کر بولا۔
" بہت غصے میں ہے یہ مرغا۔" حسن نے خاور کو بتایا تھا کیونکہ وہ تیز چونچ کھولے اسے چٹکی بھرنے کا ارادہ باندھ رہا تھا ۔ بڑے چولہے پر امی پلاؤ کا دیگچہ دھرے خالہ سے محو گفتگو تھیں۔
" اب تم خود ہی سوچو، بھائی شمس کا( ماموں جان) رویہ میرے ساتھ ٹھیک ہے۔ میرا بھی میکہ ہے ۔ کبھی جاؤں تو ایسے ہی بہانے بنا کے شروع ہو جاتا ہے' جب سے اماں گئی ہے ، مجھے تو وہ گھر اپنا گھر لگتا ہی نہیں۔"
خالہ مرغے کی ٹانگ سے نبرد آزما تھیں جو امی نے انہیں بھنائی کے وقت نکال دی تھی۔
" ایک ہی بھائی ہے ہمارا ' پتا نہیں میں اسے اتنی بری کیوں لگتی ہوں۔ مجھے تو دیکھ کر ہی اس کے تیور بگڑ جاتے ہیں ' تو بھی تو بہن ہی ہے ناں ' چلو تیرے گھر رشتے کر رکھے ہیں' میں بھی بس تیری وجہ سے آئی تھی۔"
" ایصال آپی اور مبشرہ آپی پلاؤ پکنے کا انتظار کر رہی تھیں۔
" یہ پودینہ کس نے لگایا ہے؟" حسن بھائی نے پودینے کی خوشبو اپنے اندر اتارتے ہوۓ مجھ سے پوچھا تھا۔
" میں نے لگایا ہے' جب کبھی دل چاہا' چٹنی بنا لی۔ رائتہ بنا لیا اور پھرخوشبو سارے گھر میں پھیلی رہتی ہے۔"
" یہ تو بہت اچھی بات ہے بلکہ تم تو ساری کی ساری اچھی ہو ماما!" وہ مسکرا کر بولا۔
پھر چھٹیاں ختم ہوئیں اور وہ واپس لاہور کے ہنگاموں میں کھو گئے تھے اب اگلی چھٹیوں میں پھر ملنا تھا۔ حسن بھائی کی تعریف پر میں بہت خوش بھی تھی اور حیران بھی' انہوں نے میری تعریف ہی کی تھی یا ان کی نظروں میں پسندیدگی بھی کنڈلی مارے بیٹھی تھی' سردی کی راتیںَ ستاروں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سے بھری تھیں اور میں یہ سوچ بھگانے کے چکر میں تھی کہ وہ مجھے پسند کر بیٹھے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شمس ماموں لاہور گئے تھے اور اپنے ساتھ خوشبودار باسمتی چاول گڑ مکھن دیسی گھی اور میوے بھرا حلوہ بنوا کر لے گئے تھے اور بڑی بات اس دفعہ صدیقہ بھی ان کے ساتھ گئی تھیں اور ہمیں کانوں کان خبر بھی نہ ہو سکی تھی۔
صدیقہ مہینے بھر کے لیے وہاں رک گئی تھی۔ اس بات کی خبر ہمیں یوں ہوئی کہ اس دفعہ سردیوں کے کپڑے ہم نے لاہور کے انارکلی بازار سے لینے کا فیصلہ کیا تھا۔ سنا تھا کہ وہاں سے اعلا سے اعلا کپڑا جوتے اور بھی خوبصورت چیزیں کلپ ، سویاں، چوڑیاں وغیرہ مل جاتی ہیں۔ اس بازار کی تو دھوم تھی۔ ہمارے چک میں ۔ اس بار ندیا اور خاور ابا کے ساتھ لاہور جا رہے تھے اور پر ٹھوکر نیاز بیگ سے ہوتے ہوئے ہم خالہ جان کی طرف آ گئے تھے۔ میں اور ندیا صدیقہ کو دیکھ کر حیران رہ گئے تھے۔ وہ وہاں اٹھلاتی پھر رہی تھی۔
ماموں نے احسن بھائی کے لیے تو کوثر باجی کا رشتہ دیا ہی تھا اور اب وہ صدیقہ کے لیے حسن کو پسند کرنے لگے تھے کیونکہ ان کی آمد ورفت یہی بتاتی تھی' خیربڑے برآمدے میں بیٹھی خالہ جان سے مل ملا کر وہ کولڈ ڈرنک بمشكل حلق سے اتار رہے تھے۔