SIZE
4 / 6

" شجاعت سے بات کی ہے میں نے کنیز! وہ کہتا ہے کہ اگر لڑکی اچھی ہے تو حیثیت دیکھیں۔"

جمیل کو جیسے کسی پل چین نہیں تھا، انہوں نے فون پر شجاعت سے بات کر لی تھی اور اب مجھے منا رہے تھے۔ میں نے کسی کی نہیں سنی، اور اپنی ایک سہیلی کی بیٹی سے شجاعت کا رشتہ پکا کر دیا۔ یہ جاتے رہے تھے ان کے گھر، ان کی خیر گیری کر لیتے تھے۔ امداد تو انہیں گوارا نہیں تھی لیکن ان کی عزت بڑی کرتے تھے۔ سو بار کہتے کہ کوئی کام ہو تو بتائیں لیکن وہ جوان جہان بچیاں بجلی، پانی کے بلوں کے لیے اکیلے دھکے کھاتی رہتیں لیکن انکل جمیل کو زحمت نہ دیتیں۔ اپنے لیے نوکری ڈھونڈتیں۔ سلائی مشینیں چلاتی لیکن ان سے نہ کہتیں کہ وہ دو مہینے کا بل نہیں جمع کروایا، کچھ پیسے ادھار دے دیں۔ گیس والے گیس کاٹ گئے ہیں۔ ماں بیمار ہو گئی ہے۔ اسے دمہ ہو گیا ہے، اتنے اتنے ٹیسٹ کرواۓ ہیں۔ وہ اپنی گاڑی میں بٹھا کر لے جانا چاہتے تو کہتیں کہ " اماں کا گاڑی میں دم گھٹتا ہے۔ بس میں ہی ٹھیک رہتی ہیں۔"

" ان کا اللہ مالک ہے۔ آپ تو خوش تو ہیں ناں!"

" جی۔ میں بہت خوش ہوں ۔ شجاعت کے سسرال والوں کی تو جیسے لاٹری نکل آئی تھی۔ شجاعت میرے چاروں بیٹوں میں سب سے زیادہ پیارا اور اسمارٹ ہے۔ پورا انگریز لگتا ہے۔ لوگ فلم کا ہیرو سمجھتے ہیں اسے۔ اس کی تو

تصویر دکھانے کی دیر تھی کہ ساس کا بس نہیں چلتا تھا کہ فورا بیٹی کا نکاح پڑھوا دے۔ اکلوتی تھی ماں باپ کی۔ بہت جہیز لائی تھی۔ اب لندن میں بوتیک چلاتی ہے۔ سوئمنگ پول والا گھر ہے وہاں ان کا ۔ سال میں دو بار آتے ہیں مجھ سے ملنے۔ ورنہ مجھے ٹکٹ بھیج کر بلوا لیتے ہیں۔"

"ماشا اللہ! اللہ خوش رکھے۔"

" آمین۔۔۔۔ میں نے بڑی جدوجہد کی اپنے بیٹوں کی ترقی کے لیے۔ ان کی بڑے سے بڑے گھرانوں میں شادیاں کیں تاکہ سسرال والے انہیں آگے بڑھنے میں مدد دے سکیں۔ ان کے لیے ایک سے ایک پڑھی لکھی ، خوبصورت لڑکیاں ڈھونڈیں۔ معاشرے میں بڑا مقام ہے میرے بیٹوں کا۔ لوگ جھک جھک کر سلام کرتے ہیں۔"

" واقعی آپ نے جدوجہد تو بہت کی۔۔۔۔ بیٹوں کی ماں تھیں نا آپ۔۔۔۔۔"

" اب جمیل صاحب تو میرے کاموں میں بالکل نہیں بولتے تھے۔ نعمان کے لیے بھی ایک لڑکی پسند کر لی تھی۔ حیثیت ہمارے برابر تو نہیں تھی لیکن چلیں بس گزارا تھا۔ یتیم تھی، ماں نے دوبارہ شادی نہیں کی تھی۔ ماموں کے پاس رہتی تھی۔ میں نے بات پکی کر دی۔ تین چار ملاقاتیں ہوئیں تو میں نے غور کیا کہ لڑکی اپنا بایاں ہاتھ نہیں ہلاتی۔ تھوڑی تحقیق کی تو پتا چلا کہ لڑکی کا ہاتھ بچپن سے ہی ایسا ہے۔ کچھ پکڑ وکڑ نہیں کر سکتی تھی اس سے۔ وہ غیر محسوس ایک طرف لٹکا رہتا تھا۔ مجھے بڑا غصہ آیا کہ ایک تو مجھے لولی لنگڑی لرکی دے دی پھر یہ بات مجھ سے چھپائی بھی۔ اس کی ماں بڑا روئی بے چاری۔ کہنے لگی کہ بچی نے باپ کے مرنے کا بڑا غم لیا تھا، فالج ہو گیا تھا، ہاتھ بے کار ہو گیا۔ جو آتا ہے ہاتھ کی وجہ سے انکار کر دیتا ہے۔ میں بھائی کے گھرپڑی ہوئی ہوں، جلد سے جلد بچی کے فرض سےسبکدوش ہونا چاہتی ہوں۔

" اب وہ کیا چاہتی ہے مجھے اس سے کیا مطلب بابا جی! جہاں تین بڑی بہوویں نگینہ تھیں وہاں ایسی ویسی لڑکی کیسے لے آتی۔ پھر حیثیت میں بھی کم تھے وہ لوگ۔ ماں مر جاتی تو لڑکی کو کون پوچھتا۔ میرا نعمان زرا مذہبی سا ہے۔ بڑی سختی سے کہا تھا اس نے کہ میرے لیے بھابیوں جیسی ماڈرن بیوی مت لائیے گا۔ بس اسی چکر میں ، میں پھنس گئی اس گھرانے میں۔ جو امیر تھے، ان کی بچیاں بڑی ماڈرن تھیں۔ جہاں شرافت تھی، وہاں حیثیت نہیں تھی۔ پھر یہ ہاتھ کا مسئلہ۔

جس وقت میں انکار کر کے ڈرائنگ روم سے نکل گئی تھی، اس وقت آنسو پونچھتے ہوۓ اس لڑکی نے بڑی بے بسی سے کہا تھا۔

" میرا تو ایک ہاتھ بے کار ہے آنٹی ! آپ کا تو پورا دل ہی بے کار ہے۔ جو اپنے دل میں رحم نہیں رکھتا، وہ اللہ کی محبت پر بھی حق نہیں رکھتا۔"

" بچی نے ٹھیک کہا تھا۔ اللہ کو رحم کرنے والے بہت پسند ہیں۔"

" ٖغلط تو میں نے بھی نہیں کیا تھا بابا جی! لوگ کیا کہتے، کیسی لڑکی بہو بنا کر لے آئی میں۔ اتنا بڑا آفیسر۔ میرے چار بیٹے، میں کوٹھی میں رہنے والی، میرے گھر چار ملازم، میرے اکاؤنٹ میں پیسوں کی بھرمار۔ کیا کرتی میں۔ کیسے ایسے ویسوں میں اپنے بیٹوں کی شادیاں کر دیتی۔"

" ٹھیک کیا آپ نے۔۔۔۔ اب کیا چاہتی ہیں آپ؟"