SIZE
5 / 6

" واصف نے اپنی بڑی بیٹی کی منگنی کر دی ہے۔ اتنی عمر ہو گئی ہے میری۔ اس عمر میں کیا چاہوں گی میں۔ جب چاہتی ہوں لندن پہنچ جاتی ہوں۔ ہر سال ایک عمره کرتی ہوں۔ تین حج کر چکی ہوں۔ ہر سال لاکھوں روپیہ زکوۃ نکالتی ہوں۔ سردی، گرمی، ملازموں کو کپڑے بنا کر دیتی ہوں۔ ریل پیل ہے پیسے کی۔۔۔۔۔ بڑا نام ہے میرے بیٹوں کا۔"

" ماشاء اللہ ۔۔۔۔۔ یہی تو چاہتی تھیں آپ۔۔۔۔۔۔"

" یہی چاہتی تھی بابا جی ! اور جو چاہتی تھی مل بھی گیا۔۔۔۔۔"

" پھر کیا کھو گیا ہے آپکا ؟"

وہ بچوں کی طرح دونوں ہاتھوں کو مسلنے لگیں۔ گال آنسوؤں سے تر ہو چکے تھے۔

" کیا کھو گیا ہے آپکا؟" انہوں نے نرمی سے دوبارہ پوچھا۔

" اللہ ۔۔۔۔۔۔۔ میرا رب کھو گیا ہے۔۔۔۔ اب وہ نہیں ملتا کہیں۔۔۔۔۔ تہجد بھی پڑھتی ہوں جی۔ ہر وقت تسبیح پڑھتی رہتی ہوں۔ دو سپارے روز پڑھتی ہوں ۔ اور یہ جو میرا بایاں ہاتھ ہے نا، یہ کام نہیں کرتا۔ کچھ ہوا بھی نہیں۔ واصف نے وہاں لندن بلا کر ٹیسٹ کرواۓ تھے۔ سب کہتے ہیں مجھے وہم ہے، میں خود ہی ہاتھ کو ہلاتی جلاتی نہیں ہوں۔ ڈاکٹر بھی حیران ہے کہ ٹیسٹوں میں کچھ ایسا ویسا آتا بھی نہیں اور ہاتھ بھی کام نہیں کرتا۔"

" دعا کے لیے اٹھائیں، اٹھ جائے گا۔،" .

" سب بچے کامیاب ہیں۔ خوش باش ہیں ۔ صحت مند ہیں۔ ان کی سلامتی کی دعا کے علاوہ کیا دعا کروں۔" مغفرت کی دعا............."

" کیا کہوں اللہ سے۔۔۔۔۔ وہ مجھے معاف کر دے۔۔۔۔۔ وہ مجھے معاف نہ کر چکا ہوتا تو میرے پاس دنیا جہاں کی نعمتیں کیوں ہوتیں۔ بچے میرا اتنا احترام کیوں کرتے۔ نعمان کی بیوی میری اتنی خدمت کیوں کرتی۔ میرا گھر ، پوتے پوتیوں سے کیسے بھرا رہتا۔ وہ مجھ سے ناراض تو نہیں ............وہ ناراض نہیں۔۔۔۔۔ پر وہ دور ہے۔ میں اس کے قریب نہیں ہو سکی باباجی!،"

" بابا جی نے گہری سانس لی۔ " بی بی !جو جو آپ نے چاہا اللہ نے آپ کو دے دیا۔ جیسا چاہا دیا بلکہ اس سے بڑھ کر دیا۔"

" آپ مجھ سے صاف بات کریں بابا جی! بتائیں یہ کھویا ہوا رب کیسے ملے گا۔"

" دیکھو بی بی ! اللہ کا بھی مان ہوتا ہے اپنے بندے پر۔ وہ بھی دیکھتا ہو گا کہ دیکھوں یہ میرا بندہ ہے، میں نے اسے اتنی نعمتوں سے نوازا ہے۔ میں

نے اس اتنا کرم اور اتنا رحم کیا ہے، اب میرے بندوں پر بھی رحم کرے گا۔ اس کے گناہوں کو معاف کر کے میں اس پر مہربان رہا ہوں، اب یہ بھی میرے بندوں پر مہربان ہو گا۔

اللہ کے قریب ہونے کا سب سے آسان راستہ رحم ہے۔ اس کے بندوں پر رحم ۔ بس ۔ لیکن آپ نے دنیاوی چیزوں، رتبے کو فوقیت دی۔ اللہ نے ایک بار نہیں دو بار نہیں چار بار آپ کو اپنے قریب لانا چاہا۔ آپ نے چار بار خود کو اس کے قریب ہو جانے سے دور کر لیا ۔ اس نے تو سب سے آسان راستہ دیا تھا آپ کو۔ آپ کو جہاد نہیں کرنا تھا۔ نفس کشی

نہیں کرنی تھی۔ چلے نہیں کاٹنے تھے، آپ کو خود پر جبر نہیں کرنا تھا، بس ایک دل بڑا کرنا تھا۔۔۔۔ ذراسا رحم پیدا کرنا تھا۔

وہ ناراض نہیں۔ وہ دور بھی نہیں، پر آپ کو وہ قرب بھی نصیب نہیں جو رحم کرنے والوں کو نصیب ہوتا ہے۔ وہ آپ کی دعائیں بھی سنتا ہے، قبول بھی کرتا ہے، ہوتا ہے، نمازیں بھی اہم ہیں لیکن آپ اپنا رتبہ نہیں بڑھا سکیں۔