SIZE
3 / 6

"وہ تو پاگل تھے۔ کہتے تھے، اسی شریف بچیاں آج کے زمانے میں ملنا مشکل ہے۔ ایک بچی تو حافظ قرآن تھی۔ ٹھیک ہے، دین دار ہونا اچھا ہے۔ لیکن اب کوئی زبردستی تو نہیں ہے ناں.........."

" ہاں زبردستی ہی تو نہیں ہے۔۔۔۔۔۔"

" دو گھنٹے وہاں بیٹھ کر میں نے کچھ ایسی باتیں کہیں کہ بڑی شرمندہ شرمندہ نظر آنے لگی تھیں۔ فیاض صاحب کی بیوی اور بچیاں۔ ایک بچی تو شرم سے آنکھیں ہی نہیں اٹھا پا رہی تھی۔ ایک اٹھ کر ہی چلی گئی ۔ جو سموسے، چاٹ، بسکٹ میرے سامنے بڑے فخر سے رکھے تھے ناں اب وہ خود ہی انہیں چورنظروں سے دیکھ رہی تھیں ۔ پھر نہیں اصرار کیا کہ بھابھی جی کھائیں نا۔ یہ کباب لیں۔ چائے ٹھنڈی ہو رہی ہے آپ کی، لیں نا.....،،

" اچھا کیا انہوں نے۔"

" بہت اچھا کیا انہوں نے …" وہ گہری سانس لے کر رہ گئیں۔

قاسم کی شادی میں نے اپنی پسند کے لوگوں میں کر دی کہ جمیل صاحب پھر کسی دوست کی بیٹی کا رشتہ نہ لے آئیں۔ آج کل قاسم اپنے بنگلے میں اپنے تین بچوں کے ساتھ بڑی خوشحال زندگی گزار رہا ہے۔ اس کی بیوی ایک بہت بڑے نیوز چینل میں نیوز کاسٹر ہے۔ بہت پڑھی لکھی ہے۔ بچے بھی بڑے ٹپ ٹاپ ہیں دونوں کے۔ ہاں پر ایک بار میں نے قاسم کو سائیکاٹرسٹ کے کلینک میں دیکھا تھا۔ بہت پوچھنے پر بس اتنا ہی کہا " پتا نہیں اماں! سکون نہیں۔ سب کچھ ہے لیکن ڈیپریشن ہے کہ جان ہی نہیں چھوڑتا۔،،

'' بیٹا گھر میں رہا کرو۔ کبھی نماز کی طرف بھی توجہ دو۔ قرآن پڑھ کر بچوں پر بھی پھونکا کرو اور اپنے شوہر پر بھی۔" میں نے اس کی بیوی کو پکڑ کر

سمجھایا۔

" اماں ! آپ پھونکیں مارتی تو ہیں۔"

میں اپنی جگہ، کچھ تمہارا بھی فرض ہے۔ "

" پھونکیں مارنا کہاں کا فرض ہو گیا۔"

وہ ہنسنے لگی۔

پڑھی لکھی ہے ناں بہت۔ دلیلیں بہت دیتی ہے۔ ویسے میرا بہت احترام کرتی ہے بابا جی! گھر چلی جاؤں تو چھٹی لے لیتی ہے افس سے۔ بچوں کو بھی کہتی ہے' دادی سے ملو۔ دادی کے پاس بیٹھو۔"

" یہ تو بہت اچھا ہے۔۔۔۔۔ آیا جایا کریں وہاں۔،،

" ہاں وہ۔۔۔۔۔ وہ۔۔۔۔۔ چلی تو جاؤں لیکن بابا جی! وہ فیاض صاحب کی بیٹیاں مجھے وہاں جا کر بڑا یاد آتی ہیں۔ میرا دل بڑا گھبراتا ہے جی۔ جی چاہتا ہے کہ قاسم کے گھر سے بھاگ جاؤں۔ اے سی لگا ہے، بڑا پیارا پھولوں سے بھرا ہوا لان ہے، دنیا جہاں کی سہولتیں ہیں۔ لیکن مجھے بڑا کاٹتی ہے۔ بہو مجھے مدرز ڈے پر مہنگا سا گفٹ دیتی ہے۔ میں نے اسے تو نہیں بتایا لیکن ہر بار میں وہ گفٹ کسی اور دے دیتی ہوں۔ ایک بار تو کام والی کو دے دیا تھا۔ اسے پتا چلا تو وہ برا تو مانے گی لیکن وہ میری بات بھی نہیں مانے گی کہ اس کی دی ہوئی چیزیں مجھے کاٹتی ہیں۔ ہولاتی ہیں۔ مجھے بڑا رونا اتا ہے قاسم کے گھر جا کر۔"

" فیاض صاحب سے مل لیں۔۔۔۔"

" پانچ بچیاں چھوڑ کر وہ مر گئے تھے جی۔ جمیل نے ان کی کفالت کرنی چاہی مگر جو جو کچھ میں ان کے گھر کہہ آئی تھی ناں ، تو انہوں نے کہا کہ مر جائیں گے امداد نہیں لیں گے۔ جمیل نے میرے آگے ہاتھ جوڑ دیے کہ جاؤ، کچھ

کہہ سن لیا ہے تو معافی مانگ لو۔ مرنے والے کی روح کو قرار آ جاۓ گا۔ لیکن میں کیوں کسی مرے ہوے کی روح کے قرار کا انتظام کرتی بابا جی۔۔۔۔ لوگ کیا کہتے۔۔۔۔۔۔ بیٹا پڑھنے باہرگیا ہے اور ماں نے پکڑ کر چوڑے چماروں میں رشتہ کر دیا۔"