" سر میں تکبر اور بڑائی کا بھوت سوار ہو تو شریف اور نیک لوگ اچھے ہی کہاں لگتے ہیں۔ نمازیں پڑھنا، پردے میں رہنا۔ دین کا لحاظ کرنا، دنیا کو ہاتھ سے جانے دینا۔ یہ باتیں اب کہاں اچھی لگتی ہیں بابا جی ۔ بیٹا میرا شیر جوان، اونچا لمبا، کلاس کا سب سے لائق اسٹوڈنٹ۔ میری ناک پر نند کی بیٹی کہاں چڑھتی تھی۔ اللہ سے ڈرنے والے لوگ کسے اچھے لگتے ہیں بابا جی۔ مجھے بھی کیوں اچھے لگتے۔ میں نے تو اپنے ڈاکٹر بیٹے کے لیے اونچے خاندان کی ڈاکٹر لڑکی ہی ڈھونڈنی تھی۔ میرے بیٹے کے ساتھ چلتی تو دنیا دیکھتی تھی۔"
وہ رکیں ۔ نہ جانے سانس لینے کے لیے یا آنکھیں پونچھنے کے لیے۔
" دو چار سال رشتوں کے لیے میری نند بڑی خوار ہوئی، پھر ایک بڑی عمر کے آدمی سے شادی کر دی ۔ بیٹی کی کم نصیبی کا روگ اسں نے کچھ ایسے دل سے لگایا کہ دل کی مریضہ بن گئی۔ سال بعد ہی فوت ہو گئی۔۔۔۔ خیر مجھے اس سے کیا۔۔۔۔۔۔
دوسرا بیٹا جو اپنا بزنس کرتا تھا، اس کے لیے میرے شوہر جمیل کے ایک دوست نے اشارتا اپنی بیٹی کا کہا تھا۔ پانچ بیٹیوں کے باپ تھے فیاض صاحب۔ معمولی جاب کرتے تھے۔ گھر بھی کسی گندے سے علاقے میں تھا۔ میرے شوہر کا بڑا پیار تھا ان سے۔ گھر میں کوئی تقریب ہوتی، تو بس یہی کہتے رہتے کہ کھانا پیک کر دو، ان کے گھر دے آؤں۔ مجھے بڑی چڑ تھی فیاض صاحب سے۔ جس دن جمیل نے ان کی بیٹی کا ذکر کیا تو میں اور چڑ گئی۔ ایسے ہی ٹھیکرے ہیں میرے بیٹے کہ کوئی بھی منہ اٹھا کر رشتے کے لیے کہہ دے۔ مجھے پتا تھا ایسے واصف کے ابا باز آنے والے نہیں، اس لیے خود ہی کچھ کرنا ہوگا۔ میں راضی باضی ہو کر چلی گئی لڑکیاں دیکھنے۔ بیوی بڑی اللہ لوک تھی ان کی۔ گھر چھوٹا تھا، پُرسکون بہت تھا وہاں۔ کوئی افراتفری نہیں تھی، لیکن مجھے بڑی نفرت سی محسوس ہوئی۔ گھر کے ناکارہ فرنیچر، پلستر اکھڑی دیواروں، پرانے زمانے کے پردوں اور پلاسٹک کے دس بارہ سال پرانے ڈیزائن کے برتنوں سے۔ میرے بیٹے قاسم کی اپنی کار تھی، اور یہاں ان کے گھر کے باہر اور یہاں گھر کے باہر کار کھڑی کرنے کی جگہ نہیں تھی۔ کوئی پچاس گلیاں گھما کر تو مجھے گھر لائے تھے۔
" بچیاں کیسی تھیں؟" بابا جی نے بڑی نرمی سے پوچھا۔
" فیاض صاحب جیسے سفید پوش، شریف، حلال کمائی کمانے والے کی بچیاں کیسی ہوں گی بابا جی۔ ویسی ہی ہیں ۔ سروں پر دوپٹے۔ ہاتھ پیر باوضو سے دنیا جہاں کے کام جانتی تھیں۔ ہرطرح کا کھانا پکا لیتی تھیں۔ لیکن میری طرف سے دنیا بھر کا ہنر سیکھ لیتیں، رہتی تو ڈھائی مرلہ کے گھر میں تھیں نا وہ سب۔ ویسے بھی کھانا میں کام والی سے پکواتی تھی، کپڑے میرے ٹیلر کے پاس جاتے تھے۔ کروشیے، سلائی کڑھائی کے زمانے گئے اب۔ اور شرافت کا میں نے اچار ڈالنا تھا۔"
آپ تھوڑی دیر کے لیے ان کی حیثیت کو ایک طرف رکھ کر سوچتیں۔"
" کیوں سوچی ؟ کوئی سوچتا ہے جو میں سوچتی۔
میرا بزنس مین بیٹا، اس ڈھائی مرلے کے گھر میں داماد بن کرجاتا۔ بیٹھتا کہاں وہ۔ موڑھوں پر؟ گندے سندے برتنوں میں کھاتا۔ کیا کہتا ماں نے کس گھر کا داماد بنا دیا۔"
" بیٹوں کی تربیت بھی تو آپ نے کی تھی۔ آپ اگر انہیں سمجھاتیں تو وہ سمجھ جاتے۔ پھر بچوں کے ابا بھی تو اسی گھر میں آتے جاتے رہتے تھے۔
فیاض صاحب دوست تھے ان کے۔