" وارث نے دلا دیا۔۔۔۔"
اس کے ادھورے جملے کے پورے مفہوم سمجھنے میں قدسیہ ماہر تھی۔ تیزی سے برتن اور چھُری اٹھا کر وہ برامدے میں آئی اور بچوں کو پکارا۔
" آ جاؤ' گرما کھا لو۔۔۔۔" پھر آواز قدرے دھیمی کر کے خود کلامی کے سے انداز میں بولی۔
" گرما بڑا بھاری ہوتا ہے' ایک ایک قاش سے ہی سب کا پیٹ بھر جاۓ گا۔"
سعادت نے دکھ کو نیزے کی صورت دل میں گڑتا محسوس کیا۔ قدسیہ نے گرمے کی چھ قاشیں بنائیں۔ ارادہ تھا کہ چھٹی قاش وہ سعادت اور سلیماں کو آدھی دے دے گی۔ فیضان اور رانیہ تو چھوٹے تھے ان کے لیے ایک ایک قاش بھی کافی تھی۔ رہ گئی وہ خود۔۔۔۔۔ تو ماں تو ہمیشہ اپنا نوالا اولاد کے منہ میں ڈالتی ہے۔ ابھی وہ لوگ کھا ہی رہے تھے کہ گھنٹی بجی۔ سلمان نے کھڑکی سے دیکھا۔
" ابو۔۔۔۔۔ مسرور بابا آۓ ہیں۔" قدسیہ اور سعادت کی نظریں ملیں۔ سعادت نے
آخری ٹکڑا منہ میں ڈالا اور اٹھا۔
" بیٹھک میں بٹھاؤ میں آ رہا ہوں۔" قدسیہ نے خاموشی سے چھٹی قاش پلیٹ میں رکھ کر سلمان کو تھمائی۔
" جاؤ بیٹا' یہ مسرور بابا کو دے آؤ۔" وہ پلیٹ لے کر بیٹھک کی طرف مڑ گیا اور وہ چھوٹے بچوں کی للچائی نظروں کی مایوسی سے نگاہ چراتی اٹھ گئی۔
مسرور بابا' سعادت کے والد کا پرانا نمک خوار تھا۔ اس نے سعادت کو اپنے ہاتھوں میں کھلا کر بڑا کیا تھا۔ دکان کے کام کاج گھر کا سودا سلف سعادت کو اسکول لانے لے جانے کی ذمہ داری پر کام مسرور بابا کے ذمے تھا۔ وقت بدلا حالات بدلے۔ آج سعادت اور مسرور بابا ایک درجے پر کھڑے تھے۔
" پتر صرف دو سو روپے کی ضرورت تھی' تھوڑا سا سودا گھر لے جاؤں' کھانے کو ایک روٹی تک نہیں۔" سعادت کا سر جھک گیا۔
" بابا" آپ یقین نہیں کریں گے' سودا ہمارے گھر کا بھی سارا ختم ہے۔ میں بے حد شرمندہ ہوں۔ یہ گرما کھائیں ' ہم نے بھی دن کے کھانے میں یہی کھایا ہے۔ جیسے ہی مجھے کہیں سے پیسے ملے میں فورا آپ کو بھی پہنچا دوں گا۔" مسرور بابا کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔
" مجھ سے تیری یہ حالت د یکھی نہیں جا رہی پتر۔ تیرے باپ کے دنوں میں تو پھلوں کے ٹوکرے آتے تھے ٹوکرے۔۔۔۔ لنگر چلتا تھا تیرے گھر۔ آج یہ کیا ہو گیا پتر۔۔۔۔۔ اللہ تجھ پر رحم کرے۔"
" آزمائش ہے بابا آزمائش' اسے ہنس کر گزارنا ہے۔ سعادت نے یہ کہتے ہوئے جیبیں ٹٹولیں تو دس کا نوٹ ہاتھ میں آ گیا۔ اس نے وہ نوٹ مسرور بابا کی مٹھی میں دبایا۔
" یہ ایک نوٹ نکلا ہے بابا' ایک روٹی تو آ جاۓ گی۔" مسرور بابا کے اشکوں میں روانی آ گئی۔
" اللہ تجھے مالا مال کرے پتر! تیرے تھوڑے رزق میں کروڑوں کی برکت دے۔" وہ دعائیں دیتا 'روتا ہوا رخصت ہو گیا۔ سعادت اندر آیا بچے اپنے کمرے میں لیٹ چکے تھے۔قدسیہ بھی کمرے میں لیٹی چھت پر نظریں گاڑے سوچ میں گُم تھی۔ وہ بھی خاموشی سے لیٹ گیا۔ جیب خالی ہو تو باتیں بھې ختم ہو جاتی ہیں۔ خالی جیب تو خیالی پلاؤ پکانا بھی اچھا نہیں لگتا۔ اپنی اپنی سوچوں میں گم دونوں کی آنکھ لگ گئی۔
عصر کا وقت ہو گا جب ایک بار پھر گھنٹی بجی۔ سعادت کی آنکھیں ایسے کھلی جیسے وہ سویا ہی نہ تھا۔ بچوں کی بے آرامی کے خیال سے وہ خود ہی اٹھ کر دروازے پر گیا ۔ قدسیہ اسی طرح کسلمندی سے پڑی رہی۔ جھونپڑی کے غریبوں سے زیادہ مفلس پکے مکان والے سفید پوش ہوتے ہیں' جن کے خونی رشتے بھی ان کے قریب سے سر جھکا کر یوں گزرتے ہیں جیسے جانتے نہ ہوں ۔ ایسے میں کسی مہمان کی کیا توقع ہوتی۔ اس پر پریشانی سے وہ لوگ آزاد تھے۔ لیکن باہرسے آتی سعادت کی اونچی پُرجوش آوازوں پر وہ جھٹکا کھا کر آٹھ بیٹھی۔
" کون بھولا بسرا آ گیا۔" اسی وقت سعادت اندر آیا۔