SIZE
5 / 6

" او بھلیے لوکے' کوئی چاۓ پانی بن سکتا ہے یا نہیں ؟ او کچھ ڈھونڈو میرا یار مصطفیٰ آیا ہے۔"

وہ کہہ کر واپسں بیٹھک میں گھس گیا اور قدسیہ پریشان سی باورچی خانے میں آ گئی۔ مصطفیٰ ' سعادت کا بچپن کا دوست تھا۔ کچھ عرصے سے دوسرے علاقے میں شفٹ ہو گیا تھا تو میل جول چھوٹ گیا تھا۔ کئی سال بعد اس نے اس پرانے محلے کا چکر لگایا تو سعادت کی یاد آئی۔ قدسیہ نے لال شربت کی بوتل اٹھائی۔ پیندے میں ذرا سا لگا تھا۔ اس نے پانی میں چینی گھول کر وہ ذرا سا شربت انڈیلا اور برف ڈال کر سلمان کے ہاتھوں بیٹھک میں بھیج دیا۔ فقط ایک گلاس ' مصطفیٰ نے شربت کو غور سے دیکھا پھر گھونٹ بھرا۔ شربت کی رنگت اور زائقے نے صاف بتا دیا کہ اسے چینی سے میٹھا کیا گیا ہے۔سعادت کے خوبرو چہرے پر پڑی پریشانی کی لکیریں باقی حال بیان کر رہی تھیں۔ اس نے چند سوالات کیے جن کے سعادت نے دھکے چھپے جوابات دے دیے۔ یوں کہ بھرم بھی رہ جاۓ اور پیغام بھی نہ پہنچ جاۓ۔ مصطفیٰ کو بے حد دکھ ہوا۔ جاتے ہوۓ اس نے ملاقات کے بہانے بچوں کو بلوایا' ان سے ملا چھوٹے چھوٹے سوالات کیے اور دس سالہ رانیہ کے ہاتھ پر ہزار کا نوٹ رکھ کر نکل گیا۔

گھر بھر میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ سب کے چہرے چمک اٹھے۔ سعادت نے فورا جا کر ضروری سودا سلف خریدا' سودا قدسیہ کو تھمایا اور پانچ سو کا نوٹ سلمان کو دیا۔

" یہ جا کر مسرور بابا کو دے آؤ۔" سلمان کا منہ کھل گیا۔ تین چار سو کا سودا وہ لے آیا تھا' پانچ سو مسرور بابا کو بھجوا رہا تھا' تو جیب میں کیا بچنا تھا۔

" پر ابو انہوں نے تو بس دو سو روپے مانگے تھے۔ " وہ کہے بغیر نہ رہ سکا۔ سعادت مسکرایا اور بولا۔

" اس کو دس روپے دیے تو یہ ہزار کا نوٹ رب نے اسی کے صدقے دیا۔ پھر بتاؤ وہ برابر کا حصے دار نہ ہوا؟ جیب میں اٹھنی بھی ہو نا تو غریب کو دینے سے گریز نہ کرنا۔ جو اٹھنی تمہارے لیے پچاس پیسے ہیں وہ غریب کے لیے پچاس روپے کی حیثیت رکھتے ہے۔

سلمان سر ہلاتا ہوا نوٹ جیب میں ڈال کر باہر نکل گیا۔ سعادت کو اطمینان تھا کہ بچوں کو دولت دے سکا یا نہ دے سکا مگر قناعت' شکر گزاری اور فراخ دلی ان کے اندر کوٹ کوٹ کر بھردی تھی۔ یہی انسانیت کی اساس ہے۔

ہاتھ کھینچ کر استعمال کرتے چار پانچ دن نکل گئے۔

رب کا کرم یہ تھا کہ وہ لوگ بھوکے کبھی نہ سوۓ۔ آدھے پیٹ ہی سہی وہ مالک انہیں کچھ نہ کچھ کھلاتا ضرور تھا۔ پانچویں دن مصطفیٰ ایک بار پھر آیا اور سلمان کو بھی بیٹھک میں بلا لیا۔ ۔

" دیکھ سعادت' تیرے پاس کپڑے کے کاروبار کا تجربہ ہے' مجھے میری صدر والی دکان کے لیے منیجر چاہیے۔ تو وہ سنبھال لے۔ سلمان پتر تو میری شہر والی دکان پر سیلز مین لگ جا۔"

سعادت کوشی سے بے حال ہو گیا لیکن سلمان کا چہرا اتر گیا۔ مصطفیٰ نے صاف محسوس کیا۔

" مصطفیٰ ' یہ پڑھنا چاہتا ہےاس نے صرف انٹر کیا ہے۔" مصطفیٰ نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور بولا۔