ماتھے پر ہاتھ رکھتی وہ باورچی خانے کی طرف بھاگی چولہا بند کیا' بے دھیانی میں گرم ڈھکن کو جو ہاتھ لگا کر جلد جلائی وہ الگ' جو ایک آلو کی ہنڈیا جلی وہ غم الگ۔ بے اختیار آنسو اس کے گال پر لڑھک کر دوپٹے میں گم ہو گیا۔ بانو کا لاکھوں کا مال اسباب لٹا اس کے دل میں دکھ کی ایک لہر بھی نہ اٹھی۔ اپنا چند روپے کا ایک آلو جلا تو اسے لگا کائنات لٹ گئی۔ کون سی شے کس کی کل کائنات ہے' کون جانے۔
بوجھل دل کے ساتھ تین روٹیاں پکا کر اس نے آدھ جلے آلو میں مزید پانی ڈال کر دستر خوان پر رکھ دیا جسے اس نے اپنے میاں اور تین بچوں کے ساتھ احتیاط سے کھایا۔ فیضان اور رانیہ تو چھوٹے تھے البتہ سعادت اور سلمان ادھا پیٹ ہی ہاتھ روک کر پیچھے ہٹ گئے۔ دن کا طعام ہوا تمام۔ شام اتر انے سے قبل ہی رات کی فکر دامن گیر ہو گئی۔ لیکن رزق کا وعدہ ہے۔ رات کو سلیماں نے چنا پلاؤ پکایا اور بڑی پلیٹ بھر کر ان کے گھر دے گئی۔ ساتھ سوجی کا حلوہ بھی تھا۔ سلیماں کی بیاہی بیٹی آئی تھی اسی لیے اہتمام کیا تھا۔ ان سب نے شکر بجا لا کر کھایا اور وہ قاتل دن بھی تمام ہو گیا۔
ایسا نہیں تھا کہ سعادت نکھٹو تھا۔ اسے جوتیاں چٹخاتے سات آٹھ ماہ ہو گئے تھے مگر نوکری نہ ملتی تھی۔ اتنے مہینوں میں ہزاروں روپے کا قرض اس پر چڑھ چکا تھا اور اب مزید کوئی ایک آنہ بھی قرض دینے کو تیار نہ تھا۔ تعلیماتنی تھی ہی نہیں کہ کوئی اعلا نوکری مل پاتی اور معمولی نوکری پر اس کی صورت آڑے آ جاتی ۔ وہ بلا کا خوبرو ' وجیہہ اور شاندار مرد تھا۔ کئی مرتبہ اسے دکان پر سیلز مین رکھا گیا مگر لوگ اسے مالک سمجھنے لگتے اور مالک حسد کی شکار ہو کر اسے نوکری سے فارغ کر دیتا۔ کچھ تو صورت اچھی تھی کچھ اچھے وقتوں کے سنبھال کر رکھے گئے لباس ایسے تھے کہ سب کو شرک میں مبتلا کر دیتے۔ کوئی اسے ضرورت مند سمجھنے پر تیار ہی نہ ہوتا۔ ایک زمانه جانتا تھا کہ وہ جدی پشتی کاروباری خاندان تھا لیکن باپ دادا کا کاروبار یکلخت ایسا ٹھپ ہوا کہ وہ دیکھتے ہی رہ گئے۔قریبی خیر خواہ یہی کہتے کہ ان کی ٹھاٹ باٹھ اور آن بان کو بُری نظر کھا گئی ورنہ یوں سونا خاک ہوتے کبھی نہ دیکھا تھا۔ جو ان کے ملازمین تھے اب وہ ترقی کر کے کاروباری بن چکے تھے۔
نوکری کی تلاش سے تھک کر سعادت اپنے دوست وارث کے میڈیکل اسٹور پر جا بیٹھتا۔ وہ اس کا گہرا دوست تھا لیکن اس کی طرح وہ بھی سفید پوش تھا۔ سیلز مین رکھنے کی عیاشی کا محتمل نہیں ہو سکتا تھا اور بیٹا اللہ نے اسے دیا نہیں تھا سو خود ہی دکان چلاتا تھا۔ ایک آدھ بار سعادت اس سے بھی قرضہ لے چکا تھا لیکن مزیر مانگنے کو دل نہیں چاہتا تھا۔ بس سر جھکائے بیٹھا رہتا۔ وارث خوب سمجھتا تھا لیکن کچھ کرنے سے قاصر تھا کیونکہ اس کی چار بیٹیاں تھیں جن میں سے تین بیاہے جانے کی عمر میں تھیں اور ایک کی شادی بھی طے ہو چکی تھی۔ وہ بس اپنا دال دلیہ چلا لیتا تھا۔
اس روز سعادت ضرورت سے زیادہ خاموش تھا۔ کئی دن مولی کے پتے کھا لیے تھے۔ ایک بار پھر چولہا ٹھنڈا تھا۔ صبح ناشتے میں سب نے صرف ایک ایک پیالی چاۓ پی تھی اور پڑوس سے آیا نیاز کا حلوہ دو چمچ چکھ لیا تھا۔ وارث دوپہر کے کھانے اور قیلولہ کے لیے دکان بند کر کے ایک گھنٹے کے لیے گھر جاتا تھا۔ وہ اٹھا تو سعادت کو بھی اٹھنا پڑا۔ یہ باتیں کرتے کرتے دونوں پیدل گھر کی طرف رواں دواں تھے۔ راستے میں وارث نے رک کر ایک پھل والے سے گرما خریدا اور آدھا کٹوا کر سعادت کو دے دیا ۔ دل پر بے حد بوجھ لیے سعادت نے خاموشی سے تھیلا اس لیے لیا اور دونوں اپنی اپنی گلی مڑ گئے۔ گھر آ کر تھیلا اس نے قدسیہ کو پکڑا دیا۔