SIZE
2 / 6

سلمان ماں کو بتا نہیں سکا کہ مولی کے پتے آج بھی مل جاتے اگر وہ تھوڑا بے شرم بن جاتا۔ مگر کیسے بن جاتا۔۔۔۔۔ گھڑی نے دو بجنے کا اعلان کیا' اس نے آنتوں کی آہ و زاری پر اپنی انا کو کوسا' قدسیہ نے ٹہلتے ٹہلتے یونہی فریج کا دروازہ کھولا اور اس کی آنکھیں چمک اٹھیں۔ فریج کے سبزی والے ڈبے میں ایک بڑے ساز کا آلو پڑا تھا۔ قدسیہ نے کسی ہیرے جواہرات کی طرح اسے مٹھی میں دبوچا اور باورچی خانے میں بھاگی۔

نہ پیاز نہ ٹماٹر۔۔۔۔ بس آلو کے باریک باریک قتلے کاٹے' ڈھیر سارا پانی اور نمک' مرچ' ہلدی ڈال کر چولہے پر چڑھا دیا۔ تین روٹیوں کا آٹا گوندھا پڑا تھا۔ اس کے پیڑے بنائے اور توا چولہے پر رکھا ہی تھا کہ گلی میں شور سا اٹھا۔ آہ و بکا ' چیخ و پکار' گریہ و زاری' آوازیں اتنی بلند ہوئیں کہ وہ دل پر ہاتھ رکھ کر باہر نکلی۔

" یا الہیٰ ۔۔۔۔"

گلی کے رخ پر بنے کمرے کی کھڑکی کھول کر اس نے باہر جھانکا۔ سامنے والے گھر کا دروازہ پورا کھلا تھا اور گھر کی مالکن بانو دہلیز پر کھڑی اپنے گال پیٹ رہی تھی۔

"کیا ہوا ہے سلیماں؟"

اس نے کھڑکی کے پاس کھڑی برابر والی پڑوسن کو پکار کر پوچھا۔

" بانو کی بیٹی کا جہیز چوری ہو گیا۔"

سلیماں نے آہستہ آواز میں کہا تو قدسیہ کا منہ کھل گیا۔

" بانو کی بیٹی۔۔۔۔۔وہ آمنہ؟ اس کا جہیز؟ وہ تو ابھی صرف آٹھ برس کی ہے بہن۔"

سلیماں نے ناک پر انگلی رکھ کر قدسیہ کو افسوس بھری نظر سے دیکھا۔

" ناں تو تجھے نہیں پتا کیا۔ پشوریوں کے گھر تو جس دن لڑکی پیدا ہوتی ہے اسی دن ایک جوڑا ' صندوق میں گرا کر جہیز بنانا شروع کر دیتے ہیں۔ پھر روز ہی اس صندوق میں کچھ نہ کچھ گراتے ہیں تو وقت پر جہیز بنتا ہے۔" قدسیہ ہونق بنی سلیماں کو دیکھتی رہی جو مزید کہہ رہی تھی۔

" فیر آمنہ آج آٹھ کی تو کل اٹھارہ کی۔ ہے بھی بانو اور مراد کی اکلوتی دھی۔ آٹھ سالوں میں تو نجانے کیا کیا اکٹھا کر رہا تھا دونوں نے۔ چنیوٹی فرنیچر تک رکھا تھا۔ پچاس ساٹھ تولے تو صرف سونا تھا۔ کپڑا برتن الگ۔ پر دیکھو قسمت' سب لٹ گیا۔ بازار ہی تو گئی ہوئی تھی بانو۔"

سلیماں نے کہیں سے کھینچ کر ایک موٹا سا آنسو گال پر گرایا اور آگے بڑھ کر بانو سے ہمدردی کرنے گئی۔

" حق ہا۔۔۔۔ سامان سو برس کا پل کی خبر نہیں۔" قدسیہ نے دکھ سے سوچا اور کھڑکی بند کر دی۔

" ایک ہم ہیں جو چولہا گرم رکھنے کے جتن کرتے ہیں' ایک وہ ہیں جو سالوں کا جمع جتھا لیے بیٹھے ہوتے ہیں۔ یہ بھلا عمر رضی اللہ عنہ کا دور تھوڑا ہی ہے۔ یہ تو فتنے کا دور ہے۔ یہاں کسی کو کسی کی کیا خبر ۔ یہاں تو ایسی نفسا نفسی ہے کہ کندھے سے کندھا ملاۓ بیٹھے کو بھی خبر نہیں کہ ساتھ والا سانس بھی لے رہا ہے یا گزر گیا۔"

قدسیہ زیر لب کہتی کمرے سے نکلی تو کچھ جلنے کی نا گوار بو نے اسے حال میں لا پٹخا۔

" ہاۓ میں مر گئی۔"