SIZE
1 / 6

بلا مبالغہ کوئی تیسری بار اس نے ایک ایک ڈبے کو ہلا ہلا کر اور پھر کھول کھول کر دیکھ لیا۔ جب ہلانے پر بھی کوئی آواز نہ آئی تو صاف ظاہر ہے کہ ڈبا خالی ہے' نجانے پھر ڈھکن کھول کر وہ ڈبے کے اندر کون سا معجزہ تلاشنے کے لیے جھانکتی تھی۔ ہر ڈبہ یوں کھولتی جیسے پچھلی بار اسے کھولنا بھول گئی ہو۔ وہ قدسیہ کا باورچی خانہ تھا کسی پانچ ستارہ ہوٹل کا نہیں۔ اس میں تو گن کر آٹھ دس ڈبے ہی دھرے تھے بس۔ تھک ہار کر اس سے نے ایک بار پھر کونے میں پڑی پیاز کی ٹوکری سے کپڑا ہٹایا۔ معجزہ وہاں بھی نہ ملا۔ وہ کپڑا واپس سلیقے سے پھیلا کر باورچی خانے سے باہر نکل آئی۔ سفید پوش عورت کے پاس اس کا سلیقه ہی واحد خزانہ ہوتا ہے جسے نہ تو وه بیچ سکتی ہے نہ پکا کر بچوں کو کھلا سکتی ہے

' ہاں مگراس مگر اس سے راز کھولتا تن جرور ڈھانک سکتی ہے' سو وہ بھی یہی کر رہی تھی۔

" سلمان بیٹا' تم نے سبزی والے سے مولی کے پتوں کا کہا تھا۔" وہ کمرے میں سر نیہوڑاے بیٹھے اٹھارہ سالہ بیٹے کے پاس آس لیے آتی۔ اس نے سر اٹھا کر ماں کو دیکھا۔

" جی کہا تھا۔ آج تو وہ پتے پھینک چکا' کل کاوعدہ کیا ہے کہ رکھ دے گا میرے لیے۔"

قدسیہ نے ایک گہری سانس بھری۔

" چلو آج نہ سہی کل کی ہانڈی کی تو فکر دور ہوئی۔ مولا تیرا شکر۔ "سلمان اداس نظروں سے ماں کو جاتا دیکھنے لگا۔ بھوک سے سکڑتی آنتوں کے ساتھ وہ شکر کا کلمہ کیسے پڑھ لیتی تھی' سلمان کی سمجھ سے باہر تھا۔ سبزی والے نے اس کے سامنے مولی کے پتے کچرے کے ڈھیر پر پھینکے تھے مگر وہ اسے روک نہ سکا کیونکہ اس وقت دکان پر بے حد رش تھا۔ وہ درجنوں لوگوں کے بیچ کیسے اپنا پردہ کھول دیتا۔ سب کے چلے جانے کے بعد اس نے سبزی والے سے کہا۔

" چاچا۔۔۔۔۔ میری ماں نے کہلایا ہے کہ کل سے مولی کے پتے کچرے پر نہ پھینکنا' ہمارے لیے رکھ دینا۔"

چاچا نے اسے عجیب سی نظروں سے دیکھا۔ وہ ان کے خاندان کو پشتوں سے جانتا تھا۔ سلمان تھوک نگل کر بولا۔

" ماں کہتی ہے مولی کے پتوں کا ساگ بڑا لذیذ بنتا ہے۔" کہہ کر اس نے سر جھکا لیا۔ چاچا کرم دین کی آنکھوں میں ترحم ابھرا پھر اس نے قصدا لا پروا انداز اپنایا۔

" ٹھیک ہے پتر۔ ماں کو کہنا رکھ دوں گا کل سے۔"

وہ سر اٹھاۓ بنا اسی طرح ایڑیوں پر گھوما اور تیز تیز چلتا گھر آ گیا تھا۔ چاچا کرم دین کی متاسف نگاہوں نے دور تک اس کا پیچھا کیا اور جب وہ نظر سے اوجھل ہو گیا تواپنا رومال جھٹک کر کندھے پر ڈالا اور ایک ٹھنڈی آہ بھر کر بولا۔

" واہ رے مولا' تیری تو ہی جانے۔۔۔۔ خیرات بانٹنے والے آج خود خیرات پر آ گئے۔ ایسی ذلت سے پہلے تو اٹھا لے مولا۔