اسے اڑاتی اڑاتی خبریں ملا کرتی تھیں۔ شہزادہ حاشر ہر روز نئی لڑکی کے ساتھ کسی نہ کسی ڈیٹ پوائنٹ پر پایا جاتا ہے۔لیکن وہ اگنور کرتی تھی۔ نہ بھی کرتی تو کیا کر سکتی تھی۔ اس کی دادی کہا کرتی تھیں۔ مرد کو تب تک راہ راست پر نہیں لایا جاسکتا' جب تک وہ خود نہ چاہے' رولو' منت کرلو' بچوں کے واسطے دے لو' وہ تب ہی سدھرے گا جب اس کا اپنا جی چلے گا' مرد کسی تعلق ' کسی رشتے کو پیر کی زنجیر نہیں کرتا اور ملیحہ نے زنجیر بننے کی کوشش بھی نہیں کی تھی۔اپنے آپ کو بچوں میں گم کر لیا۔ حاشر گھر آتا۔ اس کی طرف دیکھتا' اس کی شخصیت پر اعتراض کرتا اور لیپ ٹاپ کھول کر اپنی دنیا مگن ہو جاتا۔
گزرتے سالوں میں حاشر اور گھروالوں کے روئیے نے اسے احساس دلایا تھاکہ شاید دنیا میں اس سے بڑھ کر بد صورت اور پھوہڑ عورت کوئی نہیں' وہ کسی بھی بات پر کڑھتی نہیں تھی۔ کسی کے اعتراض کو وہ ختم کرنے کی کوشش ضرور کرتی تھی۔ لیکن اس نے جانا کوئی بھی اس سے خوش تھا نہیں۔
نندیں ہمیشہ بڑی بھاوج کے گیت گاتی نظر آتیں۔ وہ بھاوج جو ہمیشہ ان کی آمد پر یا تو بازار نکل جایا کرتی یا پھر بیماری کا بہانہ بنا کر ہے ہاۓ کا غلغلہ مچاۓ رکھتی۔ سردی ہوتی یا گرمی چاۓ کا کپ اور ٹی ٹائم بسکٹ کا ہاف رول ' پھر بھی وہ بہت اچھی بھابی تھی۔ ساس بھی ہمہ وقت بڑی بہو کی تعریف میں رطب اللسان نظر آتیں۔ حالانکہ کبھی جو ساس صاحبہ ادھر رہنے چلی جاتی تو اپنے رویے سے اگلے ہی دن انہیں واپس جانے پر مجبور کر دیتی اور حاشر بھی تو ہر وقت نگہت بھابی سے متاثر نظر آتا۔
" تم نے کبھی نگی بھابی کو دیکھا ہے۔" وہ اس کے حلیے پر ناقدانہ نظر ڈالتا۔ " چار جوان بیٹوں کی ماں کہیں سے بھی لگتی ہیں اور ایک تم ہو۔" تان ہمیشہ ایک تم ہو پر آ کر ٹوٹتی تھی۔
" ہاں ایک میں ہوں۔" وہ ٹوتھ برش کرتے ہوۓ آئینہ میں اپنی شکل دیکھتی تو اسے " ملیحہ " یاد آ جاتی۔ نزاکتوں سے بھری ملیحہ جو اماں کے گھر میں ہل کر پانی نہ پیتی تھی اور اب یہاں کوئی اسے ایک گھونٹ پانی دینے والا نہ تھا۔
اس روز نمرہ آ گئی۔ یہی کوئی چھ ' سات سال بعد۔ سانولی سی نمرہ کا رنگ روپ ہی اور ہو گیا تھا۔ چمکتا چہرا، ڈائی کیے بال' برانڈڈ کرتا ٹراؤزر' سن گلاسز لگاۓ وہ کوئی اور ہی نمرا تھی۔ شادی نے اسے یکسر بدل ڈالا تھا۔ اس نے اپنی حیرت کا اظہار کیا تووہ ہنس پڑی۔
" شادی ک بعد بدلنا پڑتا ہے اپنے آپ کو۔ ورنہ یہ جو شوہر حضرات ہیں' بے وفائی کرنے میں دیر نہیں لگاتے اور یہ تمہیں کیا ہو گیا ہے پیلی رنگت' اڑے بال' متوحش آنکھیں' یا اللہ! ملیحہ یہ تم ہو۔" اس نے اب غور کیا تھا' اس کی حالت زار پر۔
" کیا ہوا مجھے' وہی تو ہوں۔" وہ ہنس دی۔ کھسیانی ہنسی۔
" نہیں۔۔۔۔ تم وہی نہیں ہو۔ یہ لہسن' پیاز کی مہک میں ڈوبی لڑکی ملیحہ امتیاز تو نہیں۔ جہاں تک میں جانتی ہوں حاشر بھائی اچھی پوسٹ پر ہیں۔ تمہیں فنانشل پرابلم بھی کوئی نہیں۔ کیا تم باہر نہیں جاتی ہو حاشر بھائی کے ساتھ ۔ ان کے لیے تمہارا حلیہ قابل قبول ہے؟
" ٹھیک تو ہے میرا حلیہ ' گھر میں جوان ملازم ہیں' ڈرائیور' کک اب میں غیر مردوں کے سامنے بناؤ سنگھار کرتی اچھی لگوں گی' خوامخواہ گناہ کماؤں ' اور حاشر کو بھی مجھ سے کوئی مسئلہ نہیں۔ یہ تم آج اچانک آ گئی ہو' اس لیے تمہیں اس حلیےمیں مل گئی۔ صبح سے الماریاں صاف کر رہی تھی۔ نہانے جانا تھا مجھے ابھی۔"
اپنے تئیں اس نے نمرہ کو مطمئن کرنا چاہا تھا۔ لیکن وہ نمرہ تھی' اس کی بہت گہری دوست' بنا کہے اس کے دل کی باتیں جان لینے والی۔ اب کیسے مطمئن ہوتی۔ لیکن اس نے زیادہ کریدنا مناسب نہیں سمجھا۔ اگر وہ کسی بات کا پردہ رکھنا چاہتی ہے تو اسے کیا ضرورت' تھوڑی دیر بیٹھ' ادھر ادھر کی گپ شپ کر کے واپس چلی گئی اور جاتے جاتے ملیحہ کو اپنے گھر آنے کی تاکید کر گئی۔ اس نے وعدہ کر لیا۔ حالانکہ اسے امید نہیں تھی کہ حاشر اسے اس کی دوست کے گھر لے جائیں گے۔ ان کو اس پرانے محلے میں جاتے ہوۓ اپنی ہتک محسوس ہوتی تھی۔ وہ اس پر بہت خرچ کرتا تھا۔ آؤٹنگ پر بھی لے جاتا۔ کسی نہ کسی ویک اینڈ پره بچوں کو سینما دکھانے بھی لے جاتا۔ اس کے لیے شاپنگ بھی کرتا۔ لیکن جیسے ہی وہ اس کا لایا ہوا سوٹ' جوتی' کچھ بھی پہنتی' وہ برا سا منہ بنا لیتا۔ گہرے رنگ تم پر سوٹ نہیں کرتے۔
وہ ہلکے رنگ پہننے لگی۔ اس کا حلیہ واقعی کام کرنے والیوں جیسا ہو گیا تھا۔ ہلکے رنگ' سفید بال' بنا میک اپ کے چہرا' ہاتھ پیر کسی بھی آرائش سے مستثنیٰ۔۔۔۔ ہر وقت بچوں میں کھیلتی' ملیحہ تو کہیں سے بھی لڑکی دکھتی ہی نہ تھی۔
حاشر کی پروموشن ہوئی۔ اس نے اپنے سارے دوستوں کو ود فیملی ڈنر کے لیے انوائٹ کر لیا تھا۔ انتظام باہر لان میں کیا گیا تھا۔ وہ خود بشیر کک کے ساتھ لگی رہی۔ شام تک سب کچھ تیار تھا۔ صاف ستھرا گھر' بچے' وہ اپنا نیا ڈریس اٹھا کر واش روم کی طرف جا رہی تھی۔ جب حاشر کسی کام کی غرض سے اندر آیا۔ اس کو غور سے دیکھا۔ وہ منتظر کھڑی ہو گئی' گاڑی کی فرمان سننے کے لیے۔