" میرے سب دوستوں کی بیویاں ہائی سوسائٹی میں موو کرنے کے سارے گُر جانتی ہیں۔ وہ ہر ٹاپک پر بلا تکان گفتگو کر سکتی ہیں۔ تم کس ٹاپک پر گفتگو کر سکتی ہو؟" وہ استہزائیہ پوچھ رہا تھا۔ " نہیں' نہیں۔۔۔۔ لہسن' پیاز' سبزی' گوشت کے علاوہ ۔" اس کے کچھ کہنے سے قبل ہی حاشر نے دوبارہ کہا۔ وہ ہمیشہ کی طرح خاموش رہی۔ وہ جواب دے سکتی تھی' لیکن دینا نہیں چاہتی تھی' ہمیشہ کمال کے ضبط کا مظاہرہ کرتی تھی۔
" نہیں۔۔۔۔ میرا مطلب ہے تم ان سب میں سروائیو کر سکوں گی؟" وہ پھر بولا۔
" آپ چاہتے ہیں کہ میں باہر نہ آؤں؟" اس نے بازو پر ڈالے کپڑے بیڈ پر رکھ دیے اور واپس مڑنے کو تھی کہ حاشر کی آواز کانوں میں پڑی۔
" اب اتنا ایٹی ٹیوڈ دکھانے کی ضرورت نہیں۔ بس جس چیز کے بارے میں نہ جانتی ہو منہ نہ کھولنا۔ باقی سب جانتے ہی میں تم سوشل نہیں ہو' خالصتا "گھریلوعورت ہو"حاشر نے عورت پر خاصا زور دیا۔
وہ لڑائی' جھگڑے' بحث سے دور بھاگتی تھی۔ خاموشی سے تیار ہونے چل دی۔ بڑے سالوں بعد وہ دل سے تیار ہوئی تھی۔ اور باہر آتے ہی وہ رونق محفل بن گئی ۔
" میں بھی کہوں حاشر نے اپنی بیوی کو اتنا چھپا کر کیوں رکھا ہے۔ " حاشر کے ایک دوست نے بے باک نظروں سے اسے تولتے ہوئے کہا۔ وہ گھبرائی نہیں۔ اس نے سب مہمانوں کو ڈیل کیا۔ سب کے ساتھ باتیں کیں۔ سب اس کی صلاحیتوں کے معترف ہوئے اور حاشر کو بار بار احساس دلاتے رہے کہ اس کی بیوی بڑی گنی ہے۔ وہ بہت خوش قسمت ہے وغیرو وغیرہ۔ پارٹی ختم ہوگئی۔
کس نے اس کے کپڑوں پر نکتہ چینی کی نہ اس کے گھریلو عورت ہونے پر۔ لیکن حاشر شرمندہ ہونے والے مردوں میں سے نہیں تھا۔ کمرے میں آتے ہی فرمان جاری ہونے لگا۔
” خوش ہونے کی ضرورت نہیں۔ میں نے ان سب کو بتا رکھا ہے کہ تم کس بیک گراؤنڈ سے تعلق رکھتی ہو' شرمانا' لجانا' خوامخواہ بجھ بجھ جانا تمہاری گھٹی میں پڑا ہے۔ انہوں نے دانستہ تمہارے ساتھ تمہاری فیورٹس ڈسکس کیے۔ ورنہ یہ تو ان کا مزاج ہی نہیں۔
محلے اور سوسائٹی کا فرق تو حلیے سے ہی نظر آ جاتا ہے۔ اب دیکھو ناں تم لاکھ شارٹ شرٹ اور کیپری پہن لو تمہارے بولنے' کھانے پینے پر ہر چیز سے تمہارا محلہ نظر آتا ہے۔"
وہ کھلم کھلا بے عزتی کر رہا تھا۔ ملیحہ صبر کے گھونٹ پی رہی تھی۔ اس کا شدت سے چاہا کہ جواب دے۔ وہ محلے کی تھی تو اس کی تمام تر زیادتیوں کو سہہ رہی تھی۔ جس اپر طبقے سے حاشر کا تعلق تھا اس طبقے میں ایسی زیادتیاں برداشت کرنا عورت کو سکھایا نہیں جاتا تھا۔ اس طبقے کی عورت اگر مرد کے برابر کھڑی ہوتی ہے تو حقوق بھی برابری کے لیتی ہے۔ یہ جو دن رات بے عزت کرنے کا پروگرام حاشر اور اس کی فیملی چلائے رکھتی تھی' کوئی اور سہہ کرتو دکھاتا۔
ملیحہ نے سوچ لیا تھا جان لیا تھا۔ وہ اس گھر کے کسی فرد کے لیے باعث خوشی نہیں وہ اپنے آپ کو جتنا مرضی آزار پہنچا لے۔ لیکن اس سارے کے نتیجے میں اس نے ایک اور کام کیا ۔ اپنے آپ کو بے حس کر لیا۔ کسی کے رویے پر دکھی نہ ہونا۔ کوئی بولتا رہے' اسے کوسنوں سے نوازتا رہے۔ اس کے اٹھنے بیٹھنے چلنے پھرنے میں نقص نکالتا رہے۔ اس کی بلا سے۔
وہ کس کس کی خاطر کتنا کتنا بدلتی اپنے آپ کو۔ سب کچھ تو بدل ڈالا تھا۔ اور کیا کرتی؟کر بھی نہیں سکتی تھی۔
حاشر کو وہ پہلی نظر میں اچھی لگی تھی۔ وہ اس روز اپنے دوست سے ملنے اس کے گھر گیا تھا۔ گلی سے گزرتی لڑکیوں کے ٹولے میں وہ اسے سب سے منفرد ہی لگی۔ اس نے ارسل سے پوچھا کہ وہ کون ہے' تو اس نے اس کا سارا شجرہ نسب بتا ڈالا اور اگلے چند دن میں ہی حاشر پر انکشاف ہوا وہ اس لڑکی جس کا نام ملیحہ امتیاز تھا' کی محبت میں پور پور ڈوب چکا ہے۔ اٹھتے بیٹھتے اس کے ذہن پر وہ ہنسی سوار رہنے لگی تھی۔ اس نے ارسل کے گھر کے بلا سبب چکر لگانے شروع کیے تو وہ بھی کھٹکا۔ پوچھنے پر حاشر نے سب کہہ ڈالا۔
" شریف لڑکی ہے' شریف خاندان۔۔۔۔ اس طرح کی حرکتیں اسے بدنام کر ڈالیں گی۔ سیدھی طرح رشتہ بھیجو اور اسے اپنا لو اور اگر کوئی اور ارداہ ہے تو پھر باز رہو۔ محلے کی لڑکیاں ہماری اپنی بہنیں ہیں۔
ارسل نے اسے سمجھایا اور وہ سمجھ بھی گیا۔ مگر ڈی ای اے میں رہنے والی نئی نئی امیر ہوئی اماں کو محلے کی لڑکی سے عشق کرنا کچھ بھایا نہیں ۔ سب نے سمجھایا' لیکن حاشر کی سوئی اسی لڑکی پر اٹکی ہوئی تھی۔ بھوک ہڑتال کر ڈالی۔ اماں نے بالا ہی بالا اس لڑکی کی معلومات اکٹھی کیں اور پھر اماں شکورن جو رشتے جو رشتے کروانے والی خالہ کے نام سے مشہور تھیں نے مہر لگا دی کہ لڑکی اور اس کا خاندان انتہائی شریف ہے اور اتنے گئے گزرے بھی نہیں ' ٹھیک ٹھاک آمدن اور ٹھیک ٹھاک رہن سہن ہے۔ اماں کے کچھ خدشات دور ہوۓ' کچھ انہوں نے خود ہی نہیں کیے اور یوں اماں شکورن کی وساطت سے یہ رشتہ طے پا گیا۔
حاشر میاں بڑے خوش ' گویا ہفت اقلیم ہاتھ آ گئی ہو۔ اماں نے سمجھوتہ تو کر لیا۔ لیکن بیٹے کو چند سنہری باتیں بھی ازبر کروا دیں۔
" دیکھو بیٹا' تم نے جو چاہا' پا لیا' وہ لڑکی تمہاری ہو گئی' تمہیں چھوڑ کر کہیں نہیں جاۓ گی۔ حد سے زیادہ خوب صورت اور اوپر سے غریب محلے کی ۔ ہمیشہ میری بات یاد رکھنا کبھی اسے مت بتانا کہ تم اس سے محبت کرتے ہو۔ کبھی اسے اہمیت دے کر سر پر مت چڑھانا۔ وہ خوبصورت ہے بلا کی اور یہ بات وہ جانتی بھی ہے۔ لہذا اس کی تعریف مت کرنا۔ ورنہ تمہارے سر پر چڑھ کر ناچے گی۔ کچھ پہن لے' کچھ لگ رہی ہو۔ کبھی سراہنا مت' ورنہ پھٹ جاۓ گی' اپنے حسن سے تمہیں مغلوب کرے گی اور پھر تم پر حکومت کرے گی۔ تم کسی سے کم ہو۔" ہاں وہ کم تو کسی سے بھی نہیں تھا ہاں اگر اس کو اپنے سے کم تر لڑکی پسند آ گئی تھی تو یہ اور بات تھی۔ اس نے اماں کی بات اچھی طرح باندھ کر والٹ میں رکھ لی۔ ( لڑکی ہوتی تو پلو سے باندھتی)