" آپ نے بلایا تھا؟" جب حاشر نے نظروں سے تولنے والا کام جاری رکھا تو ملیحہ نے پوچھ لیا۔
" ہاں۔۔۔۔ وہ۔۔۔۔۔۔" حاشر ایک لمحے کو گڑبرایا۔
" میں نے تمہیں کچھ سمجھانا تھا' بیٹھو۔" سامنے اشارہ کیا۔ وہ سنگل صوفے پر ٹک گئی' یوں کہ اس کے مہندی لگے دونوں ہاتھ گود میں دھرے تھے۔ سر جھکا ہوا اور دوپٹے سے مزین۔ دائیں پاؤں کا انگوٹھا مضطرب انداز میں ہلاتی وہ جی جان سے شاہی فرمان سننے کے لیے منتظر تھی۔
" تم پرفیوم کون سا لگاتی ہو؟" سوال آیا۔
" ہائیں۔" اس نے جھٹ سے سر اٹھایا۔
" جینٹس پرفیوم لگاتی لگاتی ہوں۔" آہستہ سے کہہ کر اس نے قدرے توقف کیا' پھر بولی۔ " اماں کہتی ہیں عورتوں کو خوشبو لگا کر باہر نہیں نکلنا چاہیے' مرد متوجہ ہوتے ہیں تو گناہ ملتا ہے۔ میں نے جینٹس لگانا شروع کر دیا۔ تاکہ مرد متوجہ نہ ہوں۔" معصومیت بھرا جواب دیا۔ حاشر کا دل چاہا اس لاجک پر دل کھول کر قہقہہ لگائے' لیکن ضبط کر گیا۔ ( اماں کی تھمائی پوٹلی ٹن ٹن بجنے لگی تھی۔)
" تو لگاؤ ہی مت۔" وہ کہہ کر لیٹ گیا۔ اب یہ لگاؤ مت والا فرمان نا قابل ہضم والا تھا۔ اس کا تو سنگھار پرفیوم لگاۓ بغیر پورا ہی نہ ہوتا تھا۔ اس ایک رات میں ہی وہ جان گئی تھی' شہزادے کے سنگ رہنے کے لیے اسے بہت کچھ چھوڑنا پڑے گا اور وہ ذہن میں حساب لگاتی پھر رہی تھی کہ کیا کیا وہ آسانی سے چھوڑ سکے گی۔
شام کو ولیمہ تھا اور ولیمہ کے بعد اسے اماں ساتھ لے جانے کا ارادہ رکھتی تھیں مکلاوه ' چوتھی کی رسم ۔ حاشر میاں نے بڑے پیار سے سمجھایا۔
" اتنے سال اماں باوا کے ہاں رہ کرجی نہیں بھرا تمہارا' بس رہنے دو۔ میں کیسے سوؤں گا تمہارے بغیر؟" ( اللہ رے)
" ہائیں۔۔۔۔۔ جیسے رات کو سوئے یا پھر اب تک کی پچھلی ساری راتیں۔" وہ سوچ کر رہ گئی۔ وہ سمجھ گئی اس محل میں رہنے کے جو شرائط و قواعد لاگو ہوں گے اسے نبھانے پڑیں گے۔ اس نے سہولت سے اماں کو منع کر دیا اور وعدہ کیا مہمانوں کے جاتے ہی وہ رہنے آئے گی۔ اماں با آسانی مان گئیں۔ کوئی بد مزگی نہیں ہوئی۔ ولیمہ کے اگلے روز وہ لوگ تین دن کے ہنی مون پر مری چلے گئے۔ ان تین دنوں میں بھی نہ وہ حاشر سے بے تکلف ہو سکی نہ وہ اس سے خوش ' اسے اس کا کچھ بھی اچھا نہیں لگتا تھا۔ اس کا دوپٹہ اوڑھنا' اپنے آپ کو سمیٹ کر چلنا۔
تیار تو وہ پہلے بھی نک سک سے رہتی ہی تھی' لیکن حاشر میاں کو اس کی تیاری میں پینڈو ٹچ نظر آتا۔
" دوپٹہ سر پر مت لو۔ مائی کی لُک سے جان چھڑاؤ۔ اور یہ ڈھیلے ڈھالے کام والے کپڑے۔ اف توبہ! ہلکے رنگ پہنا کرو بلکہ اگر جینز اور ٹائٹس پر ٹاپ پہن لیا کرو تو اچھی خاصی لگو۔" شہزادے کے خیالات کچھ زیادہ ہی آزادانہ تھے۔ جینز اور ٹاپ کا سن کر ہی وہ لرز گی۔ کہیں وہ سچ میں پکڑ کر پہنا ہی نہ دے۔ اماں نے یہ تو دیکھا لڑکا شہزادہ ہے یہ نہ سوچا اس شہزادے کی شہزادی سے وہ نباہ کر بھی پائے گی یا نہیں۔ وہ عام سی محلوں میں رہنے والی لڑکی اور وہ پوش ایریا کا ماڈرن لڑکا۔ گویا اس لباس میں اس کی دونوں نندیں بھی کم و بیش ملبوس ہی نظر آتیں۔ لیکن ملیحہ کے لیے یہ سب ناقابل قبول تھا۔
حاشر کے مسلسل ٹوکنے پر دوپٹہ سر سے کندھوں پر آ گیا' لیکن وہ جینز اور ٹاپ پہننے کی ہمت نہ کر سکی۔ وہ اکثر جب اسے لے کر باہر نکلتا تو سارا راستہ اس کا موازنہ گزرنے والی لڑکیوں سے کرتا رہتا۔ اس دن بنا بتاۓ اسے سلون لے گیا اور ہیئر اسٹائلسٹ فائزه سے اس کا جدید ہیئر کٹ بنوا دیا۔ ملیحہ کی شکل میں نئے ہئیر اسٹائل سے واضح چینج آیا۔ اسے اپنا چہرا اچھا لگ رہا تھا۔ حاشرجان گیا' وہ خوش ہے' ساتھ ہی اسے جینز نے پہننے والا لیکچر پھر سے پلا دیا۔ اس نے خاموشی سے اس کی بات سنی اور دوسرے کان سے اڑا دی۔
وہ ہیوی کام والے کپڑے پہننا چھوڑ چکی تھی۔ جیولری' میک اپ اور تو اور ہاتھوں پر مہندی لگانا بھی' جس کا اسے سب سے زیادہ دکھ تھا' پھر بھی وہ ایسا کوئی کام نہیں کرنا چاہتی تھی جس سے حاشر کو دکھ ہو۔ لیکن اس سب کے باوجود حاشر اس سے خوش نہیں تھا۔
بچے ہو گئے' وہ ان میں مصروف ہوگئی' ساس' سسر' شوہر' بچے' نندوں کا آنا جانا۔ مصروفیت میں ایسے گم ہوئی کہ اپنا سراپا بھُلا ہی دیا- وہ ہروقت نک سک سے تیار ملیحہ کہیں پیچھے ہی رہ گئی۔ ایک ماں' بہو' بھابی ہی زندہ بچی۔ بچوں کی فرمائشیں' ساس سسر کا پرہیزی کھانا' ہر ویک اینڈ پر دعوتیں' اس کے پاس وقت ہی نہ بچا کہ ایک گھڑی رک کر آئینے میں اپنا سراپا ہی دیکھ لیتی' گزرتے وقت نے اس کا فگر بھی قدرے فربہی مائل کردیا تھا اور اسے یاد تھا کہ حاشر نے بہت شروع میں اسے بتا دیا تھا اسے موٹی عورتیں قطعا پسند نہیں تھیں۔ اس نے پیٹ کم کرنے کی قطعا کوئی کوشش
نہ کی ' وہ اپنی زندگی میں مگن ہو گئی۔ مہندی' کاجل' سرخی پاؤڈر سب خواب و خیال ہو گیا۔ لیکن اس کی وجہ صرف اس کی مصروفیت نہیں تھی' بلکہ وجہ کوئی اور تھی' جو کوئی نہ جان پایا تھا۔